ناول پیرِ کامل کا مختصر جائزہ
ناول کا نام: پیرِ کامل
مصنفہ: عمیرہ احمد
سالِ اشاعت اوّل: ۲۰۰۵
پبلشر: فیروز سنز
صفحات:۵۲۵
پیرِکامل ایک عمدہ ناول ہے جس میں عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی کے سفر کو بڑی دیدہ دلیری سے قلم بند کیا گیا ہے۔عمیرہ احمد نے پیرِ کامل کا عنوان آقا علیہ اسلام سے منسوب کیا ہے اور اِس میں کوئی دو رائے نہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہمارے لیے پیرِ کامل ہیں۔
عمیرہ احمد کا شمار دور حاضر کے مقبول ترین ناول اور ڈرامہ نگاروں میں ہوتا ہے ۔ آپ کا تعلق پنجاب کے شہر سیالکوٹ سے ہے اور سیالکوٹ کے مرے کالج سے ہی انگریزی میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ۔ مصنفہ نے اپنے کیرئیر کا باقاعدہ آغاز ۱۹۹۸میں اردو کے ماہناموں سے کیا۔ عمیرہ احمد نے کئی کامیاب ناول اور ڈرامے تحریر کیے لیکن اُن کی دجہ شہرت پیرِ کامل ہی بنا۔آپ اپنی تحریروں میں سماجی مسائل کے علاوہ تہذب وتمدن کو بھی ملحوظ خاطر رکھتی ہیں اور رشتوں سے منسلک تعلقات اور اُن تعلقات سے وابسطہ جذبات کو بھی منفرد اسلوب میں ڈھال کر حقیقت کے قریب لاتی ہیں۔
پیرِ کامل ہمارے اُس بنیادی عقیدے کے متعلق لکھا گیا ایک شاندار ناول ہے جو مسلمانوں کے مختلف مکتبہ فکر کو ایک لڑی میں پرو کر ایک دوسرے کے قریب لے آتا ہے۔ اِس ناول کے ذریعے عمیرہ احمد نے ہمارے آقا علیہ اسلام کو پیرِ کامل قرار دیا ہے اورختم نبوت کے عقیدے کو مرکزیت بنا کر قادیانیوں کو حدف تنقید بنایا ہے۔اِس میں کوئی دو رائے نہیں کہ محمد صلی علیہ وسلم اللہ کی طرف سے بھیجے گئے آخری نبی اور رسول ہیں اور اُن کے بعد نبوت یا رسالت کا دعویٰ کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا کذاب ہے۔
اب ناول کی کہانی اور مرکزی کرداروں کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ اِس ناول کے مرکزی کردار سالار سکندر اور اِمامہ ہاشم ہیں ۔سالار سکندر ایک عیاش اور آوارہ طبعیت طالب علم ہے جس کا تعلق ایک امیر گھرانے سے ہے۔اُس کا تعلیمی کیرئیر شاندار ہے اور ذہانت اُس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔اُس نے ہر طرح کا نشہ پال رکھا ہے اور سہلیوں کی ایک لمبی فہرست بھی رکھتا ہے۔ مذہب سے متعلق اُس کے نظریات باغیانہ ہیں اور موت کے وقت ہونے والے تکلیف کو محسوس کرنے کے لیے تین بار خود کُشی کی کوشش بھی کر چکا ہے۔
ناول کا دوسرا مرکزی کردار اِمامہ ہاشم ہے۔ اِمامہ میڈیکل کی طلبہ ہے اور اُس کا تعلق جماعت احمدیا کے ایک بااثر گھرانے سے ہے۔ زندگی میں اِمامہ کا مقصد صرف اور صرف ڈاکٹر بننا ہے لیکن پھر ایک ایسا وقت آتا ہے جب اُس کے دل میں اُس کے اپنے مذہب کے متعلق شبہات جنم لینے لگتے ہیں اور وہ اسلام اور عقیدہ ختمِ نبوت پر تحقیق شرو ع کر دیتی ہے ۔ اِس کے بعد اُس کی زندگی کا مقصد تبدیل ہو جاتا ہے اور وہ اپنے مذہب اور گھر والوں کو چھوڑنے پر تیار ہو جاتی ہے۔
مذہب تبدیلی کے بعد وہ جلال انصر سے شادی کرنا چاہتی ہے جو ایک دین دار اور عشقِ محمدی سےلبریز انسان ہے اور نعت گوئی بھی اچھی کرتا ہے۔ لیکن جب اِمامہ کی آزمائش کا وقت شروع ہوتا ہے تووہ دین دار شخص اُس کی مدد کرنےسے انکار کر دیتا ہے ۔ پھر ایک گناہ گار شخص سالارمیدان میں اترتا ہے اور اُس کی گھر سے بھاگنے میں مدد کرتا ہے۔ یہی نقطہ آغاز ہے جہاں سے سالار کی زندگی میں تبدیلیاں شروع ہوتی ہیں ۔یہاں سے وہ عشقِ مجازی اورعشقِ حقیقی کی جانب سفر کا آغاز کرتا ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ “یہ عشق نہیں آسان بس اتنا سمجھ لیجیے آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے۔”
شہزاد حسین بھٹی
۲۰۲۰۔۰۴۔۱۸
ملاحظہ فرمائیں
،پیر کامل کا مرکزی خیال
،پیر کامل پر تبصرہ
،پیر کامل ریویو
،پیر کامل pdf free download