افسانہ کفن کا معروضی مطالعہ
پریم چند کا افسانوی ادب میں ایک منفرد مقام ہے۔ وہ نہ صرف اردو کے پہلے بڑے افسانہ نگار ہیں بلکہ حقیقت نگاری اور دیہی زندگی کے مسائل کی ابتدا میں کے ہاتھوں ہوئی ہے۔ انھوں نے اردو ہندی میں تقریبا ۳۰۰ ( تین سو افسانے لکھے لیکن جامعه، دمبر ۱۹۳۵ء کے شمارے میں شائع ہونے والا ان کا افسانه کف‘‘ ان کے افسانوی سفر میں آخری عہد کی یادگاری افسانوں میں سب سے کامیاب تخلیق اورقی چابکدستی کا اعلی مظہر ہے۔ سلیم اختر کی اس رائے سے اتفاق کے پریم چند نے اردو میں مختصر افسانے کی روح کو بجھتے ہوئے اس کے گلنیکی لوازم کو پہلی مرتہ عروج اور مقبول ہی نہ کیا بلکہ کفن ایسے سنگ میل کی حیثیت اختیار کر جانے والے افسانے سمیت لا تعداد افسانوں میں افراد کے باہمی عمل اور ردعمل کے لیے دیہاتی زندگی ، اس کے گونا گوں مسائل اور ان سے وابستہ تلخیوں کو پس منظر بنا کر جو طرح ڈالی وہ اب ایک با قاعدہ روایت کی صورت اختیار کر چکی ہے۔
و (انسان حقیقت سے علا مت تک اس: ۱۸۱) عشق ودنيا وحب وطن‘‘ سے لے کر کفن‘ تک ان کی ۲۸ ساله ادبی مسافت میں افسانہ نگاری کی روایت کی مکمل تاریخ پوشیدہ ہے۔ اس حد تک مکمل کہ اردو افسانے کی تھی تشکیل کی تمام اہم کریں میں پریم چند کے افسانوں میں مل جاتی ہیں۔
ماسٹر پریم چند پروفیسر قمر رئیسی، پروفیسر جعفر رضا، پروفیسرمحسن ، پروفیسر سیلیش زیدی وغیرہ کفن کو فکری اورتی اعتبار سے اردو کی لا زوال کہانی تسلیم کرتے ہیں۔ بلا شبہ کفن پریم چند کی شاہ کا تخلیق ہے اور پروفیسر گوپی چند نارنگ کا مشورہ نہایت درست ہے کفن کے بنی کمال اور اس کی معنویت کا نقش ابھارنے کے لیے اسے تمثیلی طور پر ہیں بلکہ Irony کی سطح پر پڑھنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ پوری کہانی کی جان حالات کی وہ Irony(ستم ظریفی) ہے جس نے انسان کو انسان نہیں رہنے دیا اور اسے Debase اور Dehumanise کردیا ہے۔
افسانہ نگار پریم چند اردو افسانہ روایت اور مسائل) ہس:۱۶۲) پروفیسر آل احمد سرور کے الفاظ میں:
میں اسے اردو کی بہترین کہانیوں میں سمجھتا ہوں ۔ اس میں ایک لفظ بھی درکار ہیں ۔ ایک نقش بھی د هند انہیں شروع سے آخر تک چستی اور تلوار کی کی تیزی اور صفائی ہے۔
(تقیدی اشارے س۲۰۰) شمس الرحمن فاروقی رقمطراز ہیں:
میں کفن کو بے تکاف دنیا کے انسانوں کے سامنے رکھ سکتا ہوں ......... یہ افسانہ اور بہت سے پہلووں کے علاوہ )Black Humour کا شاہ کا نمونہ ہے اور اردو افسانے میں ایک نئے اسلوب کا آغاز کرتا
پریم چند کے اسلوب کا ایک پہلو امکان بمبئی ۱۹۸۰ء ص:۱۷۵) پروفیسر اور کام کی اس بات کئے ہیں
میرے نزدیک اس کہانی کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ یہی کہانی اردو کی وہ کہانی ہے جس نے پریم چند کی روایت کو آج تک زندہ رکھا اور آگے بڑھایا۔ ” کفن‘‘ ہی وہ کہانی ہے جو ۱۹۳۵ء سے آج تک کے پینتالیس سال کے عرصے پر پھیلی ہوئی افسانہ نگاری کو وہ بنیاد فراہم کرتی ہے جس سے پریم چند کے بعد کے افسانہ نگاروں نے حقیقت نگاری کا سلیقہ سیکھا اور یہی افسانہ ترقی پسند افسانہ نگاری کے لیے ایک اساس بن کر سامنے ( کفن کے حوالے سے پریم چند کی پچان، آج کل اگست۱۹۸۰ء ص:۴۴) إن مشاہیران قلم کے علاوہ ہندو پاک کے بیشتر ناقدین نے کفن کو ہر اعتبار سے بہت اہم انسان قرار دیا ہے کہ اس نے حقیقت نگاری کا سلیقہ اور ان کو برتنے کا ہنر سکھایا ہے ۔ دنیا کے عظیم انسانوں کی فہرست میں مذکورہ افسانہ کے مندرج ہونے میں کوئی شبہ کی گنجائش نظر نہیں آتی ہے۔
پریم چند کی یہ کہانی روز اول سے اس لیے پسند کی جاتی رہی ہے کہ اس میں آدرش نہیں، رومانیت نہیں ، تکلف نہیں، یا پاس ولی نہیں اور اگر انگشت نمائی ہوئی بھی تو کچھ اس طرح کہ کہانی کی بنیاد غیر حقیقی ، غیر انسانی ہے۔ دراصل پریم چند سہی تو واضح کرنا چاہتے تھے کہ دیکھو مہذب سماج میں ایسا بھی ہوتا ہے جو ہیں ہونا چاہیے ۔ اور اسی لیے کفن کی کہانی روز مر د کے واقعات سے ڈور لیکن اس کے حقائق سے بے حد قریب ہے۔ اس کا مرکزی خیال وہ استحصال ہے جو برسہا برس طبقه داران تقسیم قدیم ہندوستانی زرئی ساج اور انگریز کی حکومت کے نو آبادیاتی نظام میں کمزور طبقے کے ساتھ روا رکھا گیا اور جس کے نتے میں ایسے لوگ وجود میں آئے جن کے افعال و اعمال سے گھن محسوس ہوتی، جن کی ظاہری شکل و صورت، عادات و اطوار قابل نفریں معلوم ہوتے -اس استانها می جس کی تہوں کو اجاگر کرنے کے لیے پریم چند نے گھیو، ما است که مرکز بیت دے کر ہمارے مہذب سماج کی نہایت بھیانک گر کی تصویشی کی ہے۔
اردو افسانے کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت اختیار کر جانے والی کہانی کفن، تین حصوں پرمشتمل ہے۔ اس کا محور ہندوستان کا ایک روایتی گاوں ہے۔ وہاں کی بیشتر آبادی مزدوروں اور کسانوں کی ہے۔ افسانے کے پہلے حصے میں رات کا وقت ہے۔ ایک جھونپڑے سے بد ھیا کی دل خراش چیزیں سنائی دیتی ہیں ۔ باہر دروازے پر کھیسو اور با سوکھے ہوئے الا و کے گرد بیٹھے ہیں ۔ رات کے پمار، ان لوگوں کی زندگی غربت اور افلاس سے پر ہے۔ عیسو ، مادھو کا باپ اور بدر جديا با دو کی جوان بیوی ہے۔ باپ بیٹے انتہائی کا بیل اور کام چور ہیں ۔ اپنا پیٹ بھرنے کے لیے آلو مٹر یا گئے وغیر ہ پر ال تے یا پھر کسی درخت سے لکڑی کاٹ کر اسے آتے اور اپنا کام چاہتے ہیں ۔ بہو کے آنے کے بعد، دونوں اور بھی حرام خور ہو جاتے ہیں۔ بدا یا ان سے مختلف ہے ۔ وہ جفاکش اورخاص ہے ۔ محنت مزدوری کر کے ان کا پیٹ بھرتی ہے لیکن ایک سال بعد، جب وہ در وزہ سے پچھاڑیں کھاتی ہے تو ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا ہے ۔ وہ اندر جا کر اس کو دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتے ہیں ۔ الاؤ کے نزدیک بیٹھے ، بھنے ہوئے گرم گرم آلو نکال نکال کھاتے ، پانی پیتے اور وہیں پڑ کر سو جاتے ہیں ۔ افسانے کے دوسرے حصے میں رات مسیح میں ڈھل کر اور زندگی موت سے ہمکنار ہو کر سامنے آتی ہے۔ ما تو اندر جاتا تو بدميا
کو مرا پا تا ہے ۔ وہ بھاگ کر کھیو کو خبر کرتا ہے۔ دونوں مل کر ائی آہ و زاری کرتے ہیں کہ پڑوسی سن کر دوڑے آتے اور رسم قدیم کے مطابق ان کی نفی کرتے ہیں لیکن کر یا کرم کی فکر، انہیں زیادہ رونے دھونے سے باز رکھتی ہے ۔ دونوں پہلے زمیندار کے پاس پہنچتے ہیں ۔ اپنی بین جھوٹ کے سہارے بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں ۔ موقع کی نزاکت دیکھ کر زمیندار ان کو دو روپے دے دیتا ہے۔ پھر دونوں زمیندار کا حوالہ دے کر ، دیگر آبادی سے بھی تھوڑا تھوڑا وصول کرتے ہیں ۔ اس طرح ایک گھنٹے میں ان کے پاس پانچ روپے کی معقول رقم جمع ہو جاتی ہے۔ افسانہ کے تیسرے حصے میں دونوں کفن خرید نے بازار جاتے ہیں ۔ گھومتے پھرتے شراب خانہ میں داخل ہو جاتے ہیں ۔ وہاں و خوب پیتے ہیں اور لذیذ کھانوں
سے اپنا پیٹ بھرتے ہیں ۔ سارا روپیہ اڑا دیتے ہیں ۔ بد مست ہو کر ناچتے گاتے ہیں اور مدہوش ہو جاتے ہیں۔
پر خارقیقی دنیا سے فلمی دنیا میں قدم رکھنے والا فنکار وہاں کی تصویری اور تصوراتی دنیا سے تو جلد ہی بیزار ہو جاتا ہے مگر تکنیکی بنر مندی سے کچھ اور واقف ہو جا تا ہے۔ مذکورہ کہانی میں وہ سب سے پہلے قاری کو خبر دیتا ہے۔ پھر ایک تصویر بھارتے ہوئے خبر دار کرتا ہے۔ رات کے سناٹے سے شروع ہو کر شام کی سیاہی میں جذب ہو جانے والی یہ کہانی ، دن کے اجالے کی سیاہ بختی کو منور کرتی ہے۔ عام قاری پی قرات میں تذبذب کا شکار ہوتا ہے۔ اسے یہ تو مجھ میں آجاتا ہے کہ دونوں بے حس دم توڑتی ہوئی عزیز و کو دیکھنے نہیں جانتے مگر یہ سوال ذہنی چوکے لگاتا ہے کہ وہ کیسا گاؤں تھا اور کیسے پڑھی جو ایک نیک اور بے بس عورت کی دلخراش صدا کو نہیں سنتے جبکہ جاڑوں کی رات تھی ۔ فضاسناٹے میں غرق، سارا گاؤں تاریکی میں جذب ہو گیا تھا۔ ایسے خاموش ماحول میں کلیجہ تھام لینے والی آواز میں سنائی نہیں دیتی لیکن دن کے پر شور ماحول میں دونوں نے غیرتوں کی آہ و زاری سن کر دوڑے آتے ہیں اور غم زدوں کی تشفی کرنے لگتے ہیں ۔ اسی طرح یہ منظر بھی عام قاری کے لیے کچھ عجیب ہوتا ہے کہ کن اورلکڑی کی فکر میں دونوں لاش کو کیا چھوڑ دیتے ہیں ۔ کا تو کوئی ایک بھی کرسکتا تھ اور دوسرا لاش کے پاس بیٹھا ڈھونگ رچا سکتا تھا۔ افسانے میں اس کا ذکر بھی ہے۔ کھیو ، مادھو کو بتاتا ہے: میری عورت جب مری تھی تو میں تین دن اس کے پاس سے ہوا بھی نہیں ۔‘‘ عام قاری اسے درگزر کرتا ہوا آگے بڑھتا ہے تو پھر اسے ذہنی جھٹکا لگتا ہے ۔ وہ دونوں پانچ روپے کی معقول رقم جمع کر لیتے ہیں ۔ انھیں غلہ بھی مل جاتا ہے اور لکڑی بھی تو پھر اب دونوں بازار سے کفن لانے کیوں ساتھ ساتھ جاتے ہیں؟ جبکہ پڑوی مدد کر رہے ہیں وہ لوگ بانس وانس کمائے جاتے ہیں ۔ رقیق القلب عورتیں آ آ کر دیکھتی اور چلی جاتی تھیں ۔ ایسی صورت میں تو کسی ایک کارکناواجب تھا۔
دراصل یہ سوال مہذب معاشرے کے لیے ہے۔ یہ وہ افراد ہیں جہاں انسانی قدر میں ختم ہو چکی ہیں یہاں تک ک تصنع بھی مٹ چکا ہے۔ ان میں وہ منافقانہ جبلت ہے ہی نہیں ۔ یو استحصالی طبقے کی صفت ہے بھی تو فنکار نے ٹھاکر کی بارات کا تفصیلی ذکر کیا ہے اور اسے دریا دل کھہرایا ہے اور زمیندار کورتم دل آوی بتایا ہے۔
کفن میں مرکزی کرداروں کے مکا لے، افسانہ نگار کے وضاحتی بیانات اور جا بجا بکھرے ہوئے سانجی نشیب و فراز انسان کے لہجے کو طنز کا نیا آہنگ دیتے ہیں کہ تمام تشکیلی عناصر اس میں ڈوب کر رہ جاتے ہیں اور افسانہ ایک مکمل طنر کا روپ اختیار کر لیتا ہے ۔ یہ افسانہ اپنی ابتدا سے ہی رنج والم میں ڈوبا ہوا غم و اندوہ اور اداسی سے رچی بسی فضا میں پروان چڑھتا ہوا انجام کو پہنچتا ہے۔ یہی فضا افسانے کے آہنگ سے شیر و شکر ہو کر اس کی تیزی اور تندی کو اور بڑھا دیتی ہے۔ نفسیاتی حقیقت پرستی اور بہترین شخصیت پرمشتمل مذکورہ افسانے میں مرکزی کرداروں کی گفتگو خاصی معنویت رکھتی ہے۔ پریم چند نے ان مکالموں کے سہارے افسانے کو مختلف قتی منازل سے گزار کر انجام تک پہنچایا ہے۔ تھوڑے تھوڑے وقفے سے ان کی باہمی باتوں کے در میان افسانہ نگار کی مہیا کردہ تفصیلات نے افسانے کو جیتی جاگتی دنیا سے ہم آہنگ کر دیا ہے ۔ کرداروں کا مکمل تعارف ، سا بھی پس منظر اور حرکات و عوامل کہ جنھوں نے اس کی نشوونما میں حصہ لیا ہے اور دیگر جزئیات، مکالموں کے درمیان اس طرح پوست کئے گئے ہیں کہ کھیو ، مادھو کے قول وفعل کا جواز پیدا ہو جاتا ہے اور قاری خود کو ایک حقیقی لیکن کافتوں سے بھر پور جہان میں سفر کرتا ہوا محسوس کرتا ہے۔
افسانے کے ابتدائی جملاتی اعتبار سے خامے اہم ہیں۔ پریم چند نے ان جملوں سے کئی معرکے سر کے ہیں ۔ اس کے مرکزی کرداروں ، ان سے تعلق جزئیات اور پس منظر کو ریاست کے عنصر میں ڈبو کر اس طرح متعارف کرایا ہے کہ پڑھنے والے کی پوری توجہ آئندہ آنے والے واقعات پر مرکوز ہو جاتی ہے ۔ وہ پوری یکسوئی اور دل جمعی سے افسانہ پڑھنے کے لیے خود کو تیار پاتا ہے اور انجام جانے کے لیے بیتاب رہتا ہے۔ افسانے کے تمہیدی جملے میں باپ اور بیٹے کو ایک مجھے ہوئے الاؤ کے سامنے بیٹھے ہوئے بتایا گیا ہے۔
جھونپڑے کے دروازے پر باپ اور بیٹا دونوں ایک منجھے ہوئے کردار ہے اور اس کے سامنے خاموش بیٹھے ہوئے تھے۔
خاموشی“ اور ” بجھا بجوا الا ان گنت اشارے کرتا ہے اور قاری کو مختلف زاویوں سے سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ افسانہ نگار اگلے جملے میں بتاتا ہے کہ جاڑوں کی رات ہے، فضاسناٹے میں فرق ہے اور سارا گاؤں تاریکی میں جذب ہو گیا ہے۔ یہ جملہ پیش آستند واقعات کی تمہید ہے، ان کا جواز ہے اور ستم ظریفی کا اشاریہ ہے جس نے انسان کو انسان نہیں رہنے دیا، اور یہ بھی کہ معاشرے میں ایسے واقعات فروغ نہ پاسکیں۔
تمہید کے بعد کھیو اور مادھو کی ابتدائی گفتگو صورت حال کی مئینی میں اضافہ کرتی ہے اور قاری کے ذہن اور اعصاب کو متاثر کرتی ہے۔ اس جگہ کرداروں کا تفصیلی تعارف خاصا اہم ہے۔ افسانہ نگار اس تعارف کے سہارے، افسانے کے پس منظر کو بھارتا ہے، اس کے ماحول کو دھرتی کی فضا سے ہم کنار کرتے ہیں۔