میر کا شاعرانہ لب ولہجہ
میر کے انداز کی نمایاں خصوصیت ان کا لب ولہجہ ہے ۔ تا ہم میر کی شاعری جتنی سادہ اور دلکش ہے ، اتنی ہی بانی اور تیکھی بھی ہے۔ اس میں جتنی نرمی اور گداز ہے، اتنی ہی تھی اور صلابت بھی موجود ہے ۔ بنی اور شیرینی ،نرمی اور گرمی کے اس امتزاج میں ان کی شخصیت کا جادو بول رہا ہے ۔ وہ اپنی شخصیت کی انفرادیت کے سبب دوسروں سے الگ پہچانے جاتے ہیں ۔ ان کے لیجے میں مسکینی بھی ہے اور ایک وقار بھی ، محبت بھی ہے اور طنز کی تھی بھی ۔ شکستہ دلی بھی ہے اور باطنی رفعت بھی ۔ سادگی بھی ہے مگر پستی نہیں ہے ۔ ان کا لہجہ عام انسانوں کے لیے پسند یدہ ہے ۔ جس طرح ان کے موضوعات عام انسانی جذبات کو متاثر کر نے والے ہیں ،اسی طرح ان کا طریق اظہار بھی خاص و عام کے لیے دل کشی کا باعث ہے۔ ویسے تو میر کے کلام میں فارسیت اور مشکل و ناموس الفاظ بھی ملتے ہیں ۔ ان کے بعض موضوعات بھی طبقہ خاص سے متعلق ہیں، اس لیے خواص بھی ان کے کلام کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ بقول ڈاکٹر سید عبداللہ خواص اس لیے کہ صناعتی نقطہ نظر سے بھی میر کی شاعری پا یہ اعتبار سے گری ہوئی نہیں ہے ۔ انھوں نے ایسے مضامین بھی بکثرت منظوم کیے ہیں ، جو طبع انسانی کے قریب ہیں اور ایسے انداز سے باندھا ہے جو مانوس اور فطری ہے ۔ لہجہ عام کی پیروی کے طفیل میر کا کلام عام پسند ہوا۔ میر خیالات کو سادہ اور عام زبان میں پیش کرتے ہیں ۔ وقت اور اخلاق سے عموما سے پرہیز کرتے ہیں۔میر کی شاعری میں فارسیت اور روزمرہ کے مناسب امتزاج سے اظہار و بیان کے مقبول سانچے تیار کیے گئے ہیں ۔ (۲)
میر نے فارسی شاعری کی روایت کو اپنانے کے باوجود اردو زبان کو فارسی زبان کا تاج مہمل نہیں بنے دیا۔ اس حوالے سے ان کے ہاں توازن ماتا ہے ۔ انھوں نے زیادہ تر گلی کو چوں اور جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بولی جانے والی زبان کو برتا ہے ۔ عام بول چال کی زبان کو شاعری میں استعمال کر کے انھوں نے شاعری کا تعلق براہ راست معاشرے سے جوڑ دیا اور بول چال کی زبان شاعری میں استعمال ہونے کی وجہ سے نکھرا اور سنور گئی اور اس کی قوت اظہار میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ۔ زبان کے سلسلہ میں میر کے ہاں گہرے قنی شعور اور موزوں ترین الفاظ کی تلاش کا احساس ملتا ہے ۔ انھوں نے جذبات واحساسات کو بول چال کی زبان میں سمو کر بیک وقت شاعری اور زبان دونوں کے لیے نئے امکانات روشن کر دیے۔
زبان کے فنی کینوس میں توسیع
میر ہر طرح کے الفاظ ومحاورات کے استعمال کا تجربہ کرنے سے نہیں گھبراتے ۔ انھوں نے زبان کے ساتھ آزادیاں بکثرت روارکھی ہیں اور موقع پڑنے پر ہر طرح کے الفاظ بے خوفی سے استعمال کیسے ہیں ۔ انھوں نے عام زبان کو تخلیقی چاشنی دینے کی کوشش کی ۔ ان کے یہاں بول چال کی زبان تخلیقی چاشنی کے ساتھ ایک ایسی شائستگی میں ڈھل جاتی ہے، جو سب کے لیے قابل قبول ہے ۔ دراصل انھوں نے بول چال کی زبان کو ایک مستقل ادبی زبان کی صورت عطا کی ۔ وہ روز مرہ کی زبان کو شاعری کی زبان بنا دینے پر قادر تھے۔ بقول شمس الرحمن فاروقی میر واحد شاعر ہیں جنھوں نے ہماری زبان کے فطری اور نامیاتی عناصر کو اہمیت دی اور اظہار مطلب کی سعی میں مناسب ترین الفاظ کو اختیار کیا ۔ (۳) میر نے روز مرہ کی بنیاد پر اپنی شاعری کی زبان تعمیر کی البتہ دو روز مر و یا زبان کے شاعر نہیں ہیں ۔ ان کی زبان کی ایک غیر معمولی صفت اس کی بے تکلفی ہے ۔ شاعری میں بول چال کی زبان کے استعمال ہی سے طر ز میر پیدا ہوا ہے ۔ انھوں نے اپنے کمال سے اردو کی فصاحت کو پر کا یا اور زبان کو زندہ عناصر سے مالا مال کیا ۔ ان کے ہاں فقروں اور جملوں کی ساخت بول چال کی طرح چست اور بے تکلف ہوتی ہے۔
ملنے گئے ہو وی دی دیکھیے کیا ہے کیا نہیں
تم تو کرو ہو صاحبی، بندے میں کچھ رہا نہیں
ہاتھ سے تیرے اگر میں ناتواں مارا گیا
سب کہیں گے یہ کہ کیا اک نیم جاں مارا گیا
مدعی مجھ کو کھڑے، صاف برا کہتے ہیں
چپکے تم سنتے ہو، بیٹھے، اسے کیا کہتے ہیں
مولا نا محمد حسین آزاد نے 'آب حیات“ میں لکھا ہے:
میر صاحب کی زبان شستہ ، کلام صاف، بیان ایسا پاکیزہ جیسے باتیں کرتے ہیں ۔ دل کے خیالات کو جو کہ سب کی طبیعتوں کے مطابق ہیں ، محاورے کا رنگ دے کر باتوں باتوں میں ادا کر دیتے ہیں ۔(۴)
چنانچہ وہ اپنی شاعری میں باتیں کرنے کا انداز اختیار کرتے ہیں ۔ اس وجہ سے ان کے اشعار میں جملوں اورلفظوں کی ترتیب گفتگو کی ترتیب سے قریب ہوتی ہے ۔ و قلبی واردات اور کیفیات کو نہایت سادہ ، شستہ اور صاف زبان میں ایسے دلکش انداز میں بیان کرتے ہیں کہ وہ دوسروں کے دل میں اتر جا تا ہے ۔ شاعری میں باتیں کرنے کی وجہ سے میر کو خطا ہی انداز بہت پسند ہے ۔ وہ اپنے اشعار میں کسی ندی سے مخاطب ہونے کو کوشش کرتے ہیں ۔ کبھی وہ خود سے اور کبھی دوسروں سے مخاطب ہوتے ہیں ۔ یہ خطا ہی انداز سامع یا قاری کے لیے زیادہ موثر ثابت ہوتا ہے ۔ اس طرح سامع یا قاری اور شاعر کے درمیان روشن نکلتی ہے اور وہ خود کو شاعر کا عدم سمجھنے لگتا ہے ۔ بہر حال میر شاعری میں گفتگو کر نے کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔
چلتے ہو تو چین کو چلیے سنتے ہیں کہ بہاراں ہے
بات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم باد و باراں ہے
روشن ہے جل کے مرنا پروانے کا ولیکن
اے شمع کچھ تو کہہ تو تیرے بھی تو زباں ہے
میر اچھے ، مناسب اور خوبصورت الفاظ کے جو یا تھے۔ ان میں یہ صلاحیت فطری طور پر تھی کہ وہ اظہار مطالب کے لیے شیر میں اور مترنم الفاظ کو ڈھونڈ نکالتے تھے۔ انھوں نے الفاظ کی تلاش کے سلسلہ میں خود کو فارسی اور اردو کے ذخیرے تک محدود نہیں رکھا بلکہ موزوں اور پر معنی الفاظ انھیں جہاں سے بھی ملا ، انھوں نے لے لیا۔ وہ فارسی کے مترنم الفاظ و تراکیب اور ہندی کے کومل الفاظ کو برتنے کا سلیقہ جانتے تھے۔ انھوں نے مقامی بولیوں کے الفاظ کو بھی اپنی شاعری میں کھپایا۔ الفاظ کے استعمال کے ضمن میں وہ معنویت اور شیر ی کو اہمیت دیتے تھے ۔ انھوں نے فاری الفاظ کے استعمال میں ہندوستانی لب ولہجہ کو فارسی لب ولہجہ پر تر نیح دی ہے۔ ان کی نزول میں فارسی غزل کی نفاست سے زیادہ ہندی شاعری کی ارضی کیفیات ملتی ہیں ۔ انھوں نے یوں تو فارسی تراکیب کو بھی بکثرت استعمال کیا ہے ۔ تا ہم ان کے ہاں فارسی تراکیب کا ہجوم نہیں ملتا اور جہاں وہ تراکیب کا استعمال کرتے ہیں ،ان سے بھی وہ اردو شاعری کے بعض اسالیب کو ابھار تے ہیں ۔ ان کے ہاں فارسی تراکیب بالعموم اردو اسلوب سے یک جان ہو گئی ہیں ۔ ی تراکیب میر کے سلیقے کی وجہ سے شعر کے حسن میں اضافہ کرتی ہیں اور میر کے بنیادی اسلوب کے ساتھ ہم آہنگ رہتی ہیں ۔ یہ تراکیب فقالت پیدانہیں کرتیں۔
کچھ نہ دیکھا پھر جو اک شعلہ پر پیچ و تاب
جمع تک تو ہم نے دیکھا تھا کہ پروانہ گیا
لیکن میر کی زبان فارسی کے زیر اثر نہیں ہے، بلکہ فارسی الفاظ و تراکیب اردو کے مزاج میں ڈھل کر ایک نئی صورت اختیار کر گئے ہیں ۔ دیوان اول اور دوم میں ان فارسی الفاظ و تراکیب کی تعداد زیادہ ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کی تعداد کم ہوتی جاتی ہے اور دیوان ششم میں بہت کم ہو جاتی ہے ۔ گویا اپنے آخری زمانے میں وہ خالص اردو کے زیادہ قریب ہو گئے تھے ۔ فارسی اسالیب بیان سے گریز کرتے ہوئے ، جب میر اردو اسلوب کی طرف آتے ہیں ، تو ان کے ہاں وہ انفرادیت پیدا ہوتی ہے، جسے آج رنگ میر اور طرز میر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔