سودا کے عہد تک اردو قصیدے کی روایت
دکن میں ہمنی سلطنت کا قیام 1350 ء میں ہوا تھا ۔اس بات کی اہمیت یہ ہے کہ اس سلطنت کے حلقے میں اردو شعر وادب میں خاطر خواہ کام کا سلسلہ آغاز ہوا۔ مشتاق اور لطفی جیسے شاعروں کا ذکر بھی اسی عہد میں ہوتا ہے ۔ جنہوں نے قصائد لکھے۔ جب بہمنی سلطنت کئی حصوں میں تقسیم ہوئی تو عادل شاہیوں اور قطب شاہیوں کے ہاں اردو شاعری کا فروغ نہ صرف جاری رہا بلکہ ارتقاء پذیر بھی ہوا۔ عادل شاہی دور (1490-1685) میں علی عادل شاہ ملک خوشنود امین الدین اور نصرتی وغیرہ کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے قصیدہ نگاری کے فن میں اپنے جوہر دکھاۓ ۔
ان شاعروں میں نصرتی ایک ایسا شاعر ہے جسے قصیدہ میں اہم مقام حاصل ہے۔اس نے فاری قصیدے کی روایت کو پیش نظر رکھا۔ فنی اصولوں کی پیروی کی اور مقامی زبان کے علاوہ فارسی الفاظ سے بھی کام لیا۔ وہ واقعہ نگاری، متسلسل بیان اور شوکت لفظی کی اہمیت کو بخوبی سمجھتا تھا۔ قطب شاہی دور (1518-1686)۔شاعروں میں افضل قادری محمد قلی قطب شاہ اور غواصی نے قصیدہ نگاری کی غواصی کو اپنے عہد میں دوسروں پر تر نیج حاصل ہے لیکن فنی اعتبار سے ان کے قصائد میں بعض خامیاں پائی جاتی ہیں ۔ غواصی نے نہ ہی فاری قصائد کو سامنے رکھا اور نہ ہی قصیدے کی فنی ضرورتوں کو پورا کیا۔ وہ قصیدے کو براہ راست مدح کے حصے سے آغاز کر دیتے تھے۔ یہاں ولی وکی کا ذکر بھی کیا جاسکتا ہے جنہوں نے چند قصائد لکھے ہیں لیکن ان کا قصیدہ بھی فنی اعتبار سے کمزور سمجھا جا تا ہے ۔ علاوہ از میں ان کے ہاں دو زور الفاظ بھی موجود ہیں جو قصیدے کی ایک لازمی شرط ہے۔
شمالی ہندوستان میں اردو شاعری کی مقبولیت کا دور اور نگ زیب عالمگیر کی وفات (1707) کے بعد شروع ہوتا ہے۔ جب ولی دکنی کا دیوان دہلی میں پہنچا تو اردو زبان کو فروغ ملنا شروع ہوا۔ ولی وکنی کے ہاں چونکہ قصائد بھی موجود تھے لہذا اس صنف کی طرف بھی توجہ دی جائے گی ۔ لیکن چونکہ ان ونوں دہلی سیاسی انتشار اور خلفشار کا شکار تھا جبکہ قصیدے کا تعلق زیادرتر در باروں سے وابستہ سمجھا جا تا تھا۔
لہذا اسے غزل کی طرح خصوصی توجہ حاصل نہ ہوسکی ۔ سودا سے قبل ناجی حاتم اور فغان کا ذکر ملتا ہے لیکن اس فن کو اصل فروغ سودا نے دیا۔ سودا ہی کے معاصرین میں میرتقی میر بھی شامل ہیں ۔ جنہوں نے قصیدے کے فن میں بھی اپنے جو ہر دکھائے لیکن اس میدان میں وہ سودا کی برابری نہیں کرتے ۔
قصیدہ ،مرزا رفیع سودا سے پہلے کچھ شاعری
بلاشبہ دکنی دور کے آغاز سے ہی قصیدے کا وجود اردو شاعری میں ملتا ہے۔ یمنی دور میں نظامی، بیدار ، مشتاق لطفی اور عادل شاہی دور میں عبدل ،قطب ، رازی ، کمال خان رستمی ، ملک خوشنود ، نصرتی ، اعلی اور ایاتی اور قطب شاہی دور میں خواصی طبعی اور شعراۓ متاخرین میں بحری ،نوری ضعیفی اور ولی وغیرہ شعراء نے اردو قصیدے کا ابتدائی ڈھانچہ تیار کیا تھا۔
مرزا رفیع سودا کے معاصرین نے بھی اس میدان میں قلم اٹھایا مگر جونی بلندی اور پختگی سودا نے قصیدے کو عطا کی ہے وہ انہی کا حصہ تھا۔ سودا کے بعد سب سے بڑے قصیدہ گو شاعر ذوق ہیں لیکن ذوق کے ہاں قصیدے میں قدرت اظہار ، تنوع ، نیرنگی اور پرشکوہ انداز نہیں جس کی وجہ سے سودا بلند پایشاعر ہیں۔انہی خصوصیات نے سودا کا مقام اردو قصیدہ نگاری میں منفر د کر دیا ہے ۔ سودا کی مضمون آفرینی ، جوش بیان ، کلام کی پختگی ،شکوہ الفاظ ، روانی، سلاست اور جدت ، وہ خصائص ہیں جن پر آئندہ قصیدے کی بناء استوار ہوئی۔
سودا کی عظمت کا اعتراف
اردو کے تمام نقادان سخن بالا تفاق سودا کو قصیدے کا مردمیدان اور امام فن تسلیم کرتے ہیں۔ بعض لوگ تو سودا کے قصائد کے اس حد تک مداح ہیں کہ انہیں غزل گو کی بجاۓ صرف قصیدہ کو تسلیم کرتے ہیں اور غزل پر ان کے قصائد کوتر بیچ دیتے ہیں۔
شیفتہ گلشن بے خار میں لکھتے ہیں:۔ کہ
فقیر کے خیال میں اس کی غزل قصیدے سے بہتر ہے اور قصیدہ غزل سے بہتر ہے اور شاعر مصحفی نے سودا کو نقاش اول قلم قصیدہ در زبان ریختہ قرار دیا ہے ۔ دکنی دور کے قصائد کی موجودگی میں میداۓ کے ماننے میں ذرا تامل ہوتا ہے لیکن اگر اس پہلو سے دیکھا جائے کہ شمالی ہند میں قصیدے کی روایت کا آغاز بلاشبہ سودا سے ہی ہوا ہے تو اس میں کوئی شک نہیں رہتا کہ شمالی ہندوستان میں سودانے نہ صرف قصیدے پر خصوصی توجہ دہ ہے بلکہ اسے انتہائی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے۔ سودا سے قبل اگر چہ شاعروں نے قصائد لکھے ہیں مگر وہ قصیدے کے فن پر پورے نہیں اترتے۔ سودا ہی سب سے پہلے شاعر ہیں جنہوں نے کثرت سے قصیدے لکھے ہیں اور اس طرح فن آشنائی کو ثبوت دیا ہے کہ مجد حسین آزاد نے ان کو اکثر میدانوں میں فارسی شعراء سے بھی بلند کر دیا ہے۔ اس میدان میں سودافاری کے نابی شعراء کے ساتھ عناں درعناں ہی نہیں بلکہ اکثر مقامات پر ان سے آگے نکل گئے ہیں۔“