ملا وجہی پہلا انشائیہ نگار
ہمارے ہاں مریضانہ خود پسندی کے پیش نظر ڈاکٹر وزیر آغا نے اردو انشائیہ کی ایجاد کو جب سے اپنے نام سے منسوب کیا ہے تب سے اردو ناقدین اور محققین میں ایسی بحث چھڑ گئی جو اپنی بے معنویت کے باوجود ہنوز جاری ہے۔ ہر زبان میں اصناف کی قدامت سے ضمن میں اس کے اولین نقوش اور قدیم ترین مثالیں تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر آغا صاحب اردو میں انشائیہ کی قدامت کے تمام تحقیقی مواد کو محض اس بنا پر تسلیم نہیں کرتے کہ ان شواہد کی روشنی میں وہ انشائیہ کے موجد نہیں رہتے ۔ ادھر محققین ہیں کہ نئے مواد کی روشنی میں انشائیہ کی قدامت ثابت کر کے بالواسطہ طور پر گویا اس موجد کی ایجاد کا بھانڈا پھوڑتے رہتے ہیں۔
بھارت میں ڈاکٹر جاوید وشٹ نے ملا وجہی میں اسے اردو انشائیہ کا باوا آدم قرار دیتے ہوئے اسے مونتین کا ہم پلہ ثابت کیا۔ انہوں نے سب رس میں سے ایسے 61 حصوں کی نشاندہی کی ہے جن کی بنا پر انہوں نے یہ لکھا: میں ملا وجہی کو اردو انشائیہ کا موجد اور باوا آدم قرار دیتا ہوں اور اس کے ان اکسٹھ انشائیوں کو اردو کے پہلے انشائے یہ نہ فرانسیسی زبان کی تقلید میں تخلیق ہوتے ہیں اور نہ انگلش اپینے کے مرہون منت ہیں۔ اردو کے پہلے اور ایسے انشائیے ہیں جو عالمی انشائیہ کے معیار پر بھی پورے اترتے ہیں۔“ (ص: 108)
ڈاکٹر سیدہ جعفر اپنی تالیف دکنی نثر کا انتخاب میں لکھتی ہیں: اردو میں انشائیہ نما (Proto Essay) تحریروں کی سب سے پہلی جھلک ہمیں "سب رس" میں نظر آتی ہے۔ آر جی مولشن کا خیال ہے کہ کہاوت اور ضرب المثل نے آہستہ آہستہ ایسے (Essay) یا مضمون کا روپ دھارا ہے انشائیہ نما تحریر میں ضرب المثل اور لینے کی درمیانی کڑی ہیں جن کا پہلا نقش ہمیں وجہی کی سب رس میں دکھائی دیتا ہے ۔'' (ص:54) انشائیہ کے ضمن میں مزید تحقیقات اور تنقیدی بحث کیلئے راقم کی انشائیہ کی بنیاد کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔
ایک اور سب رس :
ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور نے اپنی تالیف اردو شہ پارے (ص: 26) میں دکھن کے مشہور صوفی شاہ میراں شاہ المعروف شمس العشاق ( پیدائش: 870 وفات 25 شوال 1494ء 902 ھ ) کا تذکرہ کیا ہے۔ انہوں نے بھی "سب رس" کے نام سے ایک رسالہ قلمبند کیا تھا۔ ان کے بقول یہ کتاب دیکھنی نثر میں ہے اور شاہ وجیہ الد ین کی فارسی کتاب کا ترجمہ ہے۔ ڈاکٹر زور اور ان کی پیروی میں حامد حسن قادری نے اس "سب رس" کو وجہی کی "سب رس" سے قدیم تر تسلیم کیا ہے (2) مگر ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ نے ان کی تردید کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ تاج الحقائق ہے اور شاہ وجیہ الدین (910ھ ۔ 998ھ) اس کے مصنف ہیں ۔ (3)
مثنوی کی مقبولیت:
دکنی ادب میں بلحاظ نثر "سب رس" کے پایہ کی شاید کوئی اور کتاب نہ نکلے مگر نثر کیکی مثنویوں سے پوری ہو جاتی ہے اور غزلوں کے بعد بلا مبالغہ اس صنف نے سب سے زیادہ ترقی کی ۔ بعض مثنویاں فارسی تراجم تھیں اور بعض طبع زاد یا پھر پہلے سے مقبول قصوں کو شعری قالب میں یوں ڈھالا گیا کہ ان میں تخلیقی ایج سے نیا حسن پیدا ہو گیا۔ اس عہد کی قابل ذکر مثنویاں یہ ہیں ۔ ” پھول بن ( از ابن نشاطی سن تصنیف 1655ء) طوطی نامہ " اور " سیف الملوک و بدیع الجمال ( از خواصی من تصنیف 1640ء اور 1616 علی الترتیب ) بہرام گل اندام از طبعی من تصنیف 1081ھ ) رضوان شاه ( از فائزین تصنیف 1094ھ) علی نامہ" اور "گلشن عشق ( از نصرتی من تصنیف 1074 ھ اور 1068 علی الترتیب ) دیکھیے مولوی عبدالحق کی تالیف "نصرتی : ملک الشعرائے بیجا پور کے حالات و کلام پر تبصرہ " (نئی دہلی: 1988 ء) احسن القصہ یوسف زلیخا از سید میراں ہاشمی (4) من تصنیف 1687ء) "من لگن ( از قاضی محمود بحری امن تالیف 1705 ء ) ان معروف مثنویوں اور مثنوی نگاروں کے ساتھ ساتھ تحسین الدین جنیدی دولت شاہ ملک شاہ امین عاجز طبری اور وجدی وغیرہ کا نام بھی لیا جا سکتا ہے۔
واضح رہے کہ نصیر الدین ہاشمی قلی قطب شاہ کونہیں بلکہ وجودی کو پہلا شاعرتسلیم کرتے ہیں (5) ۔ چنانچہ ان کے بقول : ہمارے نزدیک قطب شاہ پہلا شاعر نہیں بلکہ وجہی اس سے پہلا شاعر ہے۔ گو یہ صیح ہے کہ یقین کے ساتھ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وجہی سے پہلے کوئی شاعر پیدا نہیں ہوا چونکہ اس سے پہلے کا کلام بطور وثوق دستیاب نہیں ہوا ہے۔ اس لیے ابتداء کا سہرا اس کے سر باندھا جا سکتا ہے۔ ' ''دکن میں اردو ص: 14-13) و جدی کا نام بعض حضرات وجیہ الدین قرار دیتے ہیں۔ مشہور بزرگ تھے۔ ان کی دو مثنویاں مشہور ہیں ۔ پنچھی نامہ اور تحفہ عاشقاں ۔ بعض جگہ ان کا نام وجہہ الدین بھی درج ہے۔