فورٹ ولیم کالج کے مقاصد
فورٹ ولیم کالج میں اردو زبان کی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا گیا، مگر یہاں درسی ضروریات کے مطابق کتابیں دستیاب نہ تھیں۔ لہذا اس مقصد کی تکمیل کے لیے سر رشتہ تکالیف و ترجمہ قائم کیا گیا اور ملک کے اطراف و جوانب سے قابل افراد کو چن کر ان سے اردو کی کتابیں لکھوائی گئیں۔ ان ادیبوں نے جو کارنامے انجام دیے وہ اردوادب کی تاریخ میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ تمام تصنیفی و تالیفی سرگرمیاں درسی مقاصد کو پیش نظر رکھ کر سر انجام دی جارہی تھیں، لمذا سادگی یہاں کی سب تصانیف و تراجم میں پائی جاتی ہے۔
اس کالج کے روح رواں ڈاکٹر جان گلکرسٹ تھے۔ انہوں نے نہ صرف خود تصنیفی و تالیفی خدمات انجام دیں بلکہ اردو کے مصنفین سے معیاری کتابیں تالیف و ترجمہ بھی کروائیں۔ اس طرح متعدد کتا میں ترجمہ ہو ئیں جن سے اردو نثر کا ایک اسلوب قائم ہو۔ اگرچہ فورٹ ولیم کالج سے باہر یہاں کی لکھی ہوئی کتابوں کے اثرات زیادہ مرتب نہ ہو سکے تاہم یہ بات بھی سچ ہے کہ بعد میں ان تصانیف کا اسلوب جدید اردو نثر کا پسندیدہ اور مقبول اسلوب بن گیا۔ یہاں زیادہ تر کتابیں داستان سے متعلق ہیں۔ اس کے علاوہ تاریخ کے موضوعات پر بھی کچھ کتا میں لکھی گئیں اور کچھ مذہبی اور اخلاقی کتابوں کے بھی تراجم ہوئے۔
میر امن نے قصہ چہار درویش کو ”باغ و بہار “ کے نام سے لکھا۔ ”باغ و بہار “ اپنی سادہ اور دلکش نشر کی وجہ سے ایک شاہکار کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے پنج خوبی کاترجمہ کیا۔ حیدر بخش حیدری نے کئی کتابیں لکھیں۔ ان میں قصہ معبر وماہ، تو تاکہانی اور ہے۔ کاظم علی جوائز زیادہ تر مصنفین کو ان کی تالیفات کی تکمیل میں مدد کیا کرتے تھے۔ انہوں نے بھی دوکتا ہیں لکھیں۔ ایک شکنتا اور دوسری تاریخ فرشتہ کے بڑے حصے کا ترجمہ ۔ مرزا علی لطف کے گلشن ہند “ کے نام سے شعرائے اردو کا ایک تذکرہ لکھا۔ امانت اللہ نے اپنی عربی کتاب ” ہدایت الا سلام “ کو اردو میں منتقل کیا۔ بینی نرائین نے چار گلشن ، دیوانِ جہاں ، اور شاور فیع الدین کی کتاب "تنبیہ الغافلین “ کے ترجمے کیے۔
یہ کالج انگریزوں کی سیاسی اور انتظامی ضرورتوں کے تحت وجود میں آیا تھا مگر اس کا غیر شعوری طور پر اردوزبان کو بہت فائدہ پہنچا۔ اس کالج نے جس طرح سادہ نگاری پر زور دیا اور اس کے عملی نمونے پیش کیے ، اس نے اردو نثر کے اسلوب میں جدید رنگ اور آہنگ پیدا کر دیا۔ اس کالج کی کتابوں کی تصنیف کی غرض و غایت نو وار د انگریزوں کو اردو سکھانا تھا۔ اس سے انہوں نے سادگی اور صفائی کے ساتھ ادائے مطلب کا خاص طور پر خیال رکھا۔ اس کالج کے تقریباً تمام مصنفین ایک دو مثالوں کے سوا ، سادہ نویسی کے علم بردار تھے۔
سادگی ان مصنفین کی مشترکہ خصوصیت تھی۔ اس کے ساتھ یہاں ایسے گوناگوں اسالیب سامنے آتے ہیں جن پر اردو کے آئندہ اسالیب کی بنیاد رکھی گئی۔ ایک طرف میر امن اور شیر علی افسوس دہلی کے روز مرہ اور محاوروں پر اپنی تصانیف کی عمارت کھڑی کرتے ہیں وہیں دوسری طرف مولوی اکرام علی، حیدر علی اور مرزاعلی لطف و غیر وزمان سنجیدہ اور علمی زبان کا استعمال کرتے ہیں جو مقامی اثرات سے پاک ہے۔ ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فورٹ ولیم کالج نے اردو کے دوسرے مصنفین کو کس طرح متاثر کیا۔ اس سلسلے میں محققین کا یہ کہنا ہے کہ کالج کی کتابوں کا دائرہ اثر اس لیے محدود تھا کہ یہ درسی ضروریات کے تحت لکھی گئی تھیں اور کالج سے باہر ان کی پذیرائی نہیں ہو پاتی تھی۔ ان کتابوں کی باہر کے لوگوں تک رسائی مشکل تھی۔ اس لیے فورٹ ولیم کالج کا اسلوب نگارش کالج کے باہر زیادہ مقبول نہ ہو سکا۔ لیکن بعد کے زمانہ میں یہی اسلوب اردو نثر کا بنیادی اسلوب قرار پایا۔
آرائش محفل “ قابل ذکر ہیں۔ میر شیر علی افسوس نے سعدی کی کتاب گلستان کا ترجمہ باغ اردو “ ہے اور اس کے نام سے کیا۔اردو نثر نگار منشی سجاد رائے کی بہترین تاریخی کتاب خلاصتہ التواریخ کو آرائش محفل “ کے نام سے اردو بہترین انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ میر بہادر علی حسینی نے نثر بے نظیر ، اخلاق ہندی، تاریخ آسام ، اور قواعد زبان اردو “ کے نام سے کتاب میں لکھیں۔ خلیل علی خاں اشک نے بھی کئی کتابیں لکھیں مگر بیشتر غیر مطبوعہ رہ گئیں۔ انہوں نے قصہ امیر حمزہ کو اردو قالب عطا کیا۔ ان کی دوسری تصانیف میں "رسالہ کائنات جو ، اور قصہ گلزار چین بھی ہیں۔
مظہر علی خاں ولا نے ”ماد ھو تل اور کام کنڈ لا، ہفت گلشن ، اور بیتال چھپی “ کے ترجمے کیے۔ شیخ حفظ الدین نے "خرد افروز لکھی جو عیار دانش کا ترجمہ ہے۔ کاظم علی جوائز زیادہ تر مصنفین کو ان کی تالیفات کی تکمیل میں مدد کیا کرتے تھے۔ انہوں نے بھی دوکتا ہیں لکھیں۔ ایک شکنتا اور دوسری تاریخ فرشتہ کے بڑے حصے کا ترجمہ ۔ مرزا علی لطف کے گلشن ہند “ کے نام سے شعرائے اردو کا ایک تذکرہ لکھا۔ امانت اللہ نے اپنی عربی کتاب ” ہدایت الا سلام “ کو اردو میں منتقل کیا۔ بینی نرائین نے چار گلشن ، دیوانِ جہاں ، اور شاور فیع الدین کی کتاب "تنبیہ الغافلین “ کے ترجمے کیے۔ یہ کالج انگریزوں کی سیاسی اور انتظامی ضرورتوں کے تحت وجود میں آیا تھا مگر اس کا غیر شعوری طور پر اردوزبان کو بہت فائدہ پہنچا۔ اس کالج نے جس طرح سادہ نگاری پر زور دیا اور اس کے عملی نمونے پیش کیے ، اس نے اردو نثر کے اسلوب میں جدید رنگ اور آہنگ پیدا کر دیا۔ اس کالج کی کتابوں کی تصنیف کی غرض و غایت نو وار د انگریزوں کو اردو سکھانا تھا۔
اس سے انہوں نے سادگی اور صفائی کے ساتھ ادائے مطلب کا خاص طور پر خیال رکھا۔ اس کالج کے تقریباً تمام مصنفین ایک دو مثالوں کے سوا ، سادہ نویسی کے علم بردار تھے۔ سادگی ان مصنفین کی مشترکہ خصوصیت تھی۔ اس کے ساتھ یہاں ایسے گوناگوں اسالیب سامنے آتے ہیں جن پر اردو کے آئندہ اسالیب کی بنیاد رکھی گئی۔ ایک طرف میر امن اور شیر علی افسوس دہلی کے روز مرہ اور محاوروں پر اپنی تصانیف کی عمارت کھڑی کرتے ہیں وہیں دوسری طرف مولوی اکرام علی، حیدر علی اور مرزاعلی لطف و غیر وزمان سنجیدہ اور علمی زبان کا استعمال کرتے ہیں جو مقامی اثرات سے پاک ہے۔ ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فورٹ ولیم کالج نے اردو کے دوسرے مصنفین کو کس طرح متاثر کیا۔ اس سلسلے میں محققین کا یہ کہنا ہے کہ کالج کی کتابوں کا دائرہ اثر اس لیے محدود تھا کہ یہ درسی ضروریات کے تحت لکھی گئی تھیں اور کالج سے باہر ان کی پذیرائی نہیں ہو پاتی تھی۔ ان کتابوں کی باہر کے لوگوں تک رسائی مشکل تھی۔ اس لیے فورٹ ولیم کالج کا اسلوب نگارش کالج کے باہر زیادہ مقبول نہ ہو سکا۔ لیکن بعد کے زمانہ میں یہی اسلوب اردو نثر کا بنیادی اسلوب قرار پایا۔