انجمن ترقی اور اردو ادب
زبان کسی بھی ملک کا سب سے اہم ثقافتی مظہر ہوتی ہے۔ زبان کسی معاشرے کے خوا ہوں لیوں پر لفظ بن کر جاگتی ہے تو اسے اپنے ہونے کا ادراک ہوتا ہے اور اجتماعی دانش کو اظہار کا وسیلہ میسر آتا ہے۔ انجمن ترقی اردو کو سرسید کی علی گڑھ کی تحریک کے مقاصد کی توسیع اور تسلسل قرار دیا جاسکتا ہے۔ جنوری ۱۹۰۲ء میں آل انڈیا مسلم ایجو کیشنل کانفرنس علی گڑھ کے تحت ایک معلمی شعبہ قائم کیا گیا جس کا نام انجمن ترقی اردور کھا گیا۔ پروفیسر آر بلڈ ایس کے پہلے صدر اور مولا ناشبلی نعمانی پہلے سیکرٹری مقرر ہوئے۔ ابتدائی طور پر انجمن ترقی اردو کی سرگرمیاں محد و در ہیں مگر ۱۹۱۳ء میں مولوی عبدالحق کے سیکرٹری منتخب ہونے کے بعد اس ادارے کو نئی زندگی ملی ، مولوی صاحب اس زمانے میں اور نگ آباد (دکن) میں ملازم تھے۔ وہ انجمن کو اپنے ساتھ وہاں لے گئے اور اردو کی ترویج و ترقی کو اپنا مقصد حیات بنالیا۔
اکتوبر ۱۹۳۶ء میں انجمن کی مجلس مشاورت کے ایماء پر انجمن کا صدر دفتر ویلی منتقل کردیا گیا۔ دہلی میں انجمن کے علمی کاموں کی رفتار میں خاصا اضافہ ہوا۔ بر صغیر کے مختلف شہروں میں انجمن کی شاخیں قائم کی گئیں۔ انجمن ترقی اردو کی مساعی جمیلہ کے باعثے اردو ادب کی شدت و حشمت میں اضافہ ہوا، یہاں تک تعصب ہندو، اردو کو مسلمانوں کے تشخص کی علامت مجھ کر ان کے دشمن ہو گئے۔ تقسیم ہند کے ہنگاموں میں انجمن کی مطبوعات کا بڑاؤ خیر وتلف کر دیا کیا اور انجمن کے اراکین کو اتنا ہراساں کیا گیا کہ مولوی صاحب کراچی آگئے اور اکتوبر ۱۹۳۸ء سے انجمن کا مرکز کراچی بن گیا۔ سمرعبد القادر نے انجمن کے صدر اور مولوی عبدالحق نے سیکرٹری کی حیثیت سے اس ادارے کی تعظیم نو کا فیصلہ کیا اور چاندی پرسوں میں ایک بار پھر باوار و اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا۔ انجمن ترقی اردو کی خدمات کا دائرہ خاصا و نیچ ہے۔ ایک طرف قدیم علمی سرمائے اور کلاسیکی ادب خاص طور پر عملی ادب کو محفوظ کر کے زیرِ طباعت سے آراستہ کیا گیا ، دوسری طرف محققوں کی ایک قابل قدر جماعت تیار کی گئی، جس نے علمی تحقیق کی شاہراہ پر سفر کرتے ہوئے تاریخ ادب کی ٹوٹی ہوئی کتریوں کو جوڑا اور زبان وادب کے بہت سے تاریک گوشوں کو منور کیا۔ انجمن نے دو لاکھ سے زائد جدید علمی، فنی اور سائنسی اصطلاحات کا اردو ترجمہ کر کے اس زبان پر لوگوں کا کھویا ہوا اعتماد بحال کیا۔
حیدرآباد دکن کی عثمانیہ یونیورسٹی کے قیام سے اردو ذریعہ تعلیم تک انجمن ہر معاملے میں پیش پیش رہی۔ انجمن نے ایک دارالترجمہ بھی قائم کیا، جس نے مختلف زبانوں کے قابل قدر علمی ذخیرے کو اردو کے قالب میں ڈھالا قواعد اردو اور انگریزی اردو اخت" کی تیاری انجمن کے کارہائے نمایاں میں شامل ہے۔ اصطلاحات علمیہ کی لغت کے علاوہ انجمن کے زیر اہتمام اور کچھ رسائل اردو ادب میں جاری کیے گئے، جنہوں نے ادب اور سائنس کے شعبے میں ہونے والی پیشرفت سے آگاہ کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ انجمن نے نصابی کتب کی تیاری، اردو مکتب اور کتب خانوں کے ضمن میں پیش رفت سے نا خواند وا جنوں کو علم کی روشنی سے منور کیا۔ ۱۹۴۹ء میں انجمن نے کراچی میں اردو کالج قائم کیا۔ پھر اردو سائنس کالج اور اب اردو یو نیورسٹی کا قیام بھی انجمن ترقی اردو کا ایک شاندار کارنامہ ہے۔ الجمن ترقی اردو نے تحقید و تحقیق کے جو چراغ روشن کیے ان کی روشنی کا سفر آج بھی جاری و ساری ہے اور مستقبل میں بھی اہل علم کے راستوں کو رہا کرتا رہے گا۔
اردو اور انجمن پنجاب کی خدمات
اردو ادب میں انجمن پنجاب ایک کرداری خدمات رکھتی ہے اور قابل دید ہے اور ان کی ادبی خدمات کس حد اردو ادب کے لیے بہترین دور میں شمار کیا جاتا ہے ۔
۱۸۵۷ء کا سال ہماری سیاسی، تاریخی، تہذیبی، معاشی اور اخلاقی زندگی کا سخت ترین سال تھا۔ جنگ آزادی کی ناکامی نے جہاں تہذیہی بساط پر، تعلق اور وہاں سے شعور اور طور پر احساس کے دروازے کھول کر عوام الناس کے ذہنی افق کوئی وسعتوں سے ہم کنار کیا۔ سرسید کی علی گڑ یہ تحریک نے نثری ادب کو عقلیت اور افادیت کی روشنی عطا کر کے سماجی تبدیلی کے محل کا آغاز کیا، جبکہ انجمن پنجاب نے مشاعروں کے ذریعے اردو شاعری کو گل و بلبل اور بارش در خسار کے افسانوں سے نکال کر فطرت اور زندگی کے متنوع رنگوں سے آشنا کیا۔ گورنمنٹ کان کے پرنیل تھی ۔ ڈبلیو ں انٹر (GW Leiter) نے جنوری ۱۸۲۵ میں انجمن اشاعت مطالب مفیدہ مانجاب کے نام سے جو انجمن قائم کی ، وہ انجمن پنجاب " کے نام سے معروف ہوگئی۔ اس ادارے کے قیام کا مقصد علم و ادب کا فروغ تھا۔ انجمن کے زیر اہتمام ایک کتب خانہ بھی کھولا گیا ۔ مولانامحمد حسین آزاد کو اس انجمن کا سیکرٹری مقرر کیا گیا۔
انجمن پنجاب کے زیر اہتمام ۱۸۷۷ میں مولانا محمد حسین آزاد نے ایک لیکچر بعنوان اور درباب نظم اور کلام موزوں دیا تھا اسے جدید شعری تحریک کا نقطہ آغاز قرار دیا جا سکتا ہے۔ اور یہ اس کے۱۸۷۴ کو انجمن پنجاب کے زیر اہتمام ایک مشاعرہ منعقد ہوا جو اردو شاعری کی تاریخ اور آزاد کی زندگی میں نمایاں اہمیت رکھتا ہے۔ آزاد کے ساتھ حالی بھی انجمن کے مشاعروں میں شریک ہوئے۔ حالی نے اپنی علم رکھا ات الجمن کے پہلے مشاعرے میں سنائی، اس کے بعد موضوعی مشاعروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اور تاریخ ۱۸۷۵ تک امید، لب وطن ، زمستان، امن، انصاف ، قناعت، مروت اور تہذیب کے موضوع پر مشاعرے منعقد ہوئے ۔ یوں تمام تر مخالفتوں کے باوجود مشاعروں کا یہ پودا پروان پڑھا۔ سرسید نے تہذیب الاخلاق میں اس حوالے سے لکھا: اردو زبان کے علم وادب کی تاریخ میں ۱۸۷۴ کا دوران جب لاہور میں نیچرل ہواری کا مشاعرہ ہوا، ہمیشہ یادگار ہے گا ۔ نے کور و مشاعروں میں پڑھی جانے والی فلموں کو نیچرل شاعری قرار دیا گیا۔ ان نظموں میں مناظر قدرت کی بھر پور تصویر کشی کی گئی۔ ہر کھارت میں جانی نے فطرت کے رنگوں کو اس طرح اجا گر کیا ہے