علی گڑھ تحریک اور اردو نثر
اردو ادب کو ہم اپنی سہولت کے لیے دو حصوں میں تقسیم کر دیتے ہیں۔ جن کا سمجھنا انتہائی آسان ہو جایے گا۔
پہلا دور کلاسیکی ۱۸۵۷ء سے پہلے شروع ہوا
دوسرا دور جدید ۱۸۵۷ء کے بعد ہر زبان کی طرح اردو بھی سماجی ضروریات کے نتیجہ میں معرض وجود میں آئی، جس میں رفتہ رفتہ تہد ہی خیالات اور ادبی تحقیقات کے لیے راہ ہموار ہوتی گئی۔ ۱۸۵۷ء سے پہلے کا بیشتر ادب معیار اور مقدار دونوں حوالوں سے شاعری کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے اور شاعری کے ارقام نے بھی نثر کو اظہار و ابلاغ کے وسیلے عطا کیے۔ چنانچہ ۱۸۵۷ء کے بعد نثر نگاری کو با قاعدہ تحریک کی صورت ملی اور جذبات پر عقلیت پرستی غالب ہوتی چلی گئی ۔ جس طرح ہر رویے کا ایک پس منظر ہوتا ہے اس طرح شاعری سے نثر با جذبات سے تعقل پسندی تک کے سفر کے محرکات کا جائزہ لینے کے لیے بہت سے معاشرتی، سیاسی اور نفسیاتی عوامل کا جائزہ لینا ہوگا۔
اس کے لیے میں اردو نثر کے اراکا کا مختصر جائز و لینا ہوگا۔ قدیم نر جو ایک حد تک نہ حیات تک ہی محدود تھی۔
(۲) فورٹ ولیم کالج کی نثر، جس کا مقصد برطانوی استعار کواستحکام عطا کرنا تھامگر بالواسطہ طور اردو زبان وادب معیاری کردار نصیب ہوا۔
خطوط غالب کی اہمیت اور ان کا اہم کردار قابل ذکر ہے۔
(سرسید کی اصلاحی تحریک (تحریک علی گڑھ کا کردار پر ایک نظر)
اردو زبان کی ترقی جن سماجی اور سیاسی اسباب سے وابستہ تھی ان کے زیراثر اس کے دائرے میں وسعت پیدا ہوتی چلی گئی۔ اٹھارہویں صدی کا خاتمہ ہوتے ہوتے تاریخ نئے رنگ بدل رہی تھی ۔ مغلیہ سلامت کے کھنڈر پرانی طاقتیں اپنے راج محل تعمیر کر رہی تھیں۔ انیس الد یا مکانی کے ہاجروں نے ایسے رنگین جال بچھائے کہ ہندوستان کے بد حال و بد قماش بادشاہ اور امراء کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے سارے وسائل اس میں پھنس کر رہ گئے،
چنانچہ شکست خوردہ جاگیردارانہ نظام ، تاج برطانیہ کی گود میں جا گرا۔ انگریزوں نے اپنے تجارتی اور سیاسی احکام کے بعد ایسی تعلیمی پالیسی وضع کی جس سے ان کے مخصوص مقاصد کی تکمیل ہو چنانچہ انہوں نے مقامی زبانوں اور خاص طور پر اردو ہندوستانی) پر نظر کرم کی اور دوسری طرف مذہبی منافرت پھیلا کر تقسیم کرنے اور حکومت کرنے پر اپنی توجہ صرف کی۔
اس حوالہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ فورٹ ولیم کالج اور دلی کالج نے اردو کے نثری ادب کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا۔ شاعری پہلے بھی مقبول تھی، بعد میں بھی شاعری کا چرچا رہا لیکن غیر محسوس انداز میں شعر کے پردے میں چھپے شعور کے مقابلہ میں نثر کے بلا واسطہ ابلاغ کے عمل کو اہمیت ملتی چلی گئی تعلیم ، پریس، اخبارات اور دوسرے ذرائع نے بھی نشر کوئی زندگی عطا کی ساس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی پیش نظر پہنی چاہیے کہ اس وقت جب انگریزی تعلیم، انگا اتنا ہی اور سائنس کے اثرات کے تحت نثر میں سیاسی و سماجی مسائل جگہ پارہے تھے،
بیشتر شاعر چائے دھرے پر ہی چل رہے تھے۔ چنانچہ انیسویں صدی کے وسط سے تاریخی ، سماجی اور فکری تعمیرات نے جس طرح ادبی تاریخ کے دھارے کا رخ بدل دیا، اس میں نثر نگاری کا کردار سب سے نمایاں نظر آتا ہے۔ اگر چہ نثر جذبات کو مسترد نہیں کرتی مگر تعقل کے غالب اثر کی بدولت نہ صرف ادب کی تخلیقی توانائی میں اضافہ کرتی ہے بلکہ کشاکش حیات کی مختلف مسلموں کو بھی زیادہ مؤثر انداز میں اجاگر کرتی ہے۔
اگر ہم ان کا تہذیبی بساط میں رکھیں اور ان پر انگریزوں کی فتح اور ہندوستانیوں کی شکست نے ہندوستانیوں کی اخلاقی سماجی اور علمی قدروں کو زوال آشنا کر کے انہیں احساس زیاں" کی دولت سے بھی محروم کر دیا۔ اس صورت حال نے دو طبقوں کو جنم دیا۔ پہلا طبقہ نیم مرد و تہنہ علی قدروں سے چمٹا ہوا تھا جبکہ دوسرا طبقہ ہراتی ہوئی صورت حال میں ابتلاء کا وسیلہ تلاش کر رہا تھا۔
۱۸۵۷ء میں برطانوی استعمار کا شکار ہونے والے عوام اور دم توڑتے جاگیردارانہ نظام نے غیر منظم انداز میں آزادی کی جنگ لڑی جس میں انہیں ہزیمت اٹھانا پڑی۔ اس جنگ کا عتاب مسلمانوں پر خاص طور پر نازل ہوا۔ مسلمان جاگیرداروں اور زمینداروں کو ان کی جاگیروں سے محروم کر کے ذلت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ ۱۸۸۵ء میں نیشنل کانگریس کے قیام سے " ہندو" کی متعصبانہ سوچ کو اظہار کا ایک
پلیٹ فارم میسر آ گیا۔ چنانچہ انگریزی عہد ایک طرح سے بر عظیم کی تاریخ کا سیاہ دور قرار پاتا ہے، مگر اس کا ایک وسرا رخ یہ ہے کہ ہندوستان میں نئے علوم وفنون، سائنس کے جدید طرز احساس اور ادبی شعور کو اظہار کے قریبن میسر آئے۔ اس دور میں چند ادیب اور دانشوری ایسے تھے جو روح عصر کے بیچ معنوں میں نبض شناس قرار دیے جاسکتے ہیں، ان ادبیوں میں سرسید، حالی، آزاد، رتن ناتھ سرشار اور ندیم احمد وغیرہ اہمیت رکھتے ہیں۔ ۱۸۵۷ء میں سرسید احمد خاں کی عمر چالیس برس کی تھی ،
سرسید اس دور میں جدید نسل کے نمائندہ بن کر مسلمانوں کو عصری تقاضوں کا شعور عطا کرنے میں سرگرم عمل نظر آتے ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کے تمام امراض کا علاج تعلیم میں تلاش کیا، چنانچہ بقول ڈاکٹر جمیل جالی سرسید کی تمام توانائیاں اس امر پر مرکوز ہو گئیں مسلمانوں کو لے خیالات کی طرف مائل کیا جائے اور انہیں ترغیب دلائی جائے کہ وہ ہولے ہوئے منظر میں بی تہذیب کے صحت مند عناصر کو اپنے اندر جذب کرنے کا گر۔ یہ کام کچھ آسان نہیں تھا، اس کا تعلق مسلمانوں کی سوچ اور انداز نظر کو بدلنے سے سرسید نے ۱۸۵۹ء میں مراد آباد میں ایک مدرسہ کی بنیاد ڈالی۔ ۱۸۶۲ء میں غازی پور میں ایک اور سکول قائم کیا اور ہی سال سائنٹفک سوسائٹی کی بنیاد ڈالی جس کا مقصد جدید علوم کی کتابوں کو اردو میں مانقل کرتا تھا۔ ۱۸۶۹ء میں انگلستان کے سفر نے جہاں انہیں مغربی تعلیمی اداروں کے مشاہدہ کا موقع فراہم کیا وہاں سیکٹر اور ٹیلر" کے اصلاحی اور تہذہبی رجحانات نے انہیں اتنا جاڑ کیا کہ مٹی واپسی پر انہوں نے تہذیب الاخلاق" کے نام سے رسالہ جاری کیا جس نے مسلمانوں کی تہذیبی اقدار کی طرف اور ان کی ترویج کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا جو توجہ طلب ہے کافی حد تک۔