Aligarh tehreek in urdu essay
علی گڑھ تحریک اور مضمون نویسی
اصناف نثر میں علی گڑھ تحریک کا ایک اور اہم کارنامہ مضمون نویسی یا مقالہ نگاری ہے۔ اردو نثر میں مضمون نویسی کے اولین نمونے بھی علی گڑھ تحریک نے ہی فراہم کیے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ سفر یورپ کے دوران سرسید احمد خان وہاں کے بعض اخبارات مثلا سی کنید، میٹر اور گارڈین و غیرہ کی خدمات سے بہت زیادہ متاثر ہوئے تھے اور سرسید احمد خان نے انہیں اخباروں کے انداز میں ہندوستان سے بھی ایک اخبار کا اجراء کا پروگرام بنایا تھا۔ چنانچہ وطن واپسی کے بعد سر سید احمد خان نے ”رسالہ تہذیب الاخلاق“ جاری کیا۔ اس رسالے میں سرسید احمد خان نے مسائل زندگی کو اُسی فرحت بخش انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی جوند کورہ بالا رسائل کا تھا۔ سرسید احمد خان کے پیش نظر چونکہ ایک اصلاحی مقصد تھا اس لیے ان کے مضامین اگر چہ انگریزی Essay کی پوری روح بیدار نہ ہو سکی تاہم علی گڑھ تحریک اور تہذیب الاخلاق کی بدولت اردو ادب کا تعارف ایک ایسی صنف سے ہو گیا جس کی جہتیں بے شمار تھیں اور جس میں اظہار کے رنگارنگ قرینے موجود تھے۔ تہذیب الاخلاق کے مضمون نگاروں میں سرسید احمد خان، محسن الملک اور مولوی پیر بخش کے علاوہ دیگر کئی حضرات شامل تھے۔ ان بزرگوں کے زیر اثر کچھ مدت بعد اردو میں مقالہ نگاری کے فن نے ہمارے ہاں بڑے فنون ادبی کا درجہ حاصل کر لیا۔ چنانچہ محسن الملک، وقار الملک، مولوی چراغ علی، مولانا شیلی اور حالی کے مقالے ادب میں بلند مقام رکھتے ہیں۔
علی گڑھ تحریک اور ناول نگاری
علی گڑھ تحریک میں اصلاحی اور منطقی نقطہ نظر کو تمثیل میں بیان کرنے کارجحان سرسید احمد خان، مولانا حالی اور محسن الملک کے ہاں نمایاں ہے۔ تاہم مولوی نذیر احمد نے اسے فن کا درجہ دیا اور تحریک کے عقلی زاویے اور فکری نظریے کے گرد جیتے جاگتے اور سوچتے ہوئے کرداروں کا جمگھٹا کھڑا کر دیا۔ چنانچہ وہ تمام باتیں جنہیں سرسید احمد خان نسبتاً بے رنگ ناصحانہ لہجے میں کہتے ہیں۔ ڈپٹی نذیر احمد نے انہیں کرداروں کی زبان میں کہلوایا ہے اور ان میں زندگی کی حقیقی رمق پیدا کر دی ہے۔ اگر چہ زندگی کی یہ تصویریں بلاشبہ یک رخی ہیں اور نذیر احمد نے اپنا سار از ور بیان کرداروں کے مثالی نمونے کی تخلیق میں صرف کیا۔ لیکن یہ حقیقت بھی مد نظر ر کھنی چاہیے کہ سکوت دہلی کے بعد مسلمانوں کی زبوں حالی کے پیش نظر اس وقت مثالی کرداروں کو پیش کرنے کی ضرورت تھی۔ چنانچہ صاف اور واضح نظر آتا ہے کہ مولانا شبلی اور مولانا حالی نے جو قوت اسلاف کے تذکروں سے حاصل کی تھی وہی قوت نذیر احمد مثالی کرداروں کی تخلیق سے حاصل کرنے کے آرزو مند ہیں۔ مولوی نذیر احمد کے ناول چونکہ داستانوں کے تخیلی اسلوب سے ہٹ کر لکھے گئے تھے اور ان میں حقیقی زندگی کی جھلکیاں بھی موجود تھیں اس لیے انہیں وسیع طبقے میں قبولیت حاصل ہوئی اور ان ناولوں کے ذریعے علی گڑھ تحریک کی معتدل اور متوازن عقلیت کو زیادہ فروغ حاصل ہوا اس طرح نذیر احمد کی کاوشوں سے نہ صرف تحریک کے مقاصد حاصل ہوئے بلکہ ناول کی صنف کو بے پایاں ترقی ملی۔
علی گڑھ تحریک اور نظم
علی گڑھ تحریک نے غزل کے بر عکس نظم کو رائج کرنے کی کوشش کی۔ اس کا سبب خود سر سید احمد خان یہ بتاتے ہیں کہ " ہماری زبان کے علم وادب میں بڑا نقصان یہ تھا کہ نظم پوری نہ تھی۔ شاعروں نے اپنی ہمت عاشقانہ غزلوں اور واسوختوں اور مدحیہ قصوں اور ہجر کے قطعوں اور قصہ کہانی کی مثنویوں میں صرف کی تھی۔“ اس بناء پر سرسید احمد خان نے غزل کی ریزہ خیالی کے بر عکس نظم کو رائج کرنے کی سعی کی۔ نظم کے فروغ میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے مولانا الطاف حسین حالی سے ” مسدس حالی“ لکھوائی اور پھر اسے اپنے اعمال حسنہ میں شمار کیا۔ سر سید احمد خان شاعری کے مخالف نہ تھے لیکن وہ شاعری کو نیچرل شاعری کے قریب لانا چاہتے تھے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے محمد حسین آزاد کے نے چر مشاعرے کی داد دی اور ان کی مثنوی ”خواب امن کو دل کھول کر سراہا۔ سرسید احمد خان کی جدیدیت نے اس حقیقت کو بھی پا لیا تھا کہ قافیہ اور ردیف کی پابندی خیالات کے فطری بہائو میں رکاوٹ ہے۔ چنانچہ انہوں نے بے قافیہ نظم کی حمایت کی اور لکھا کہ ردیف اور قافیہ کی پابندی گویذات شعر میں داخل تھی۔ رجزا اور بے قافیہ شعر گوئی کا رواج نہیں تھا اور اب بھی شروع نہیں ہوا۔ ان باتوں کے نہ ہونے سے ہماری نظم صرف ناقص ہی نہ تھی بلکہ غیر مفید بھی تھی۔“ چنانچہ سرسید احمد خان کے ان نظریات کا اثر یہ ہوا کہ اردو نظم میں فطرت نگاری کی ایک موثر تحریک پیدا ہوئی۔ نظم جدید کے تشکیلی دور میں علی گڑھ تحریک کے ایک رکن عبد الحلیم شرر نے سرگرم حصہ لیا اور "ر سالہ دلگداز میں کئی ایسی نظمیں شائع کیں جن میں جامد قواعد وضوابط سے انحراف برت کر تخلیقی رو کو اظہار کی آزادی عطا کی گئی تھی۔
مجموعی جائزہ
علی گڑھ تحریک ایک بہت بڑی فکری اور ادبی تحریک تھی۔ خصوصا ادبی لحاظ سے اس کے اثرات کا دائرہ بہت وسیع ثابت ہوا۔ اس تحریک کی بدولت نہ صرف اسلوب بیان اور روح مضمون میں بلکہ ادبی انواع کے معاملے میں بھی ناموران علی گڑھ کی تو سیعی کوششوں نے بڑا کام کیا۔ اور بعض ایسی اصناف ادب کو رواج دیا جو مغرب سے حاصل کر دہ تھیں۔ ان میں سے بعض رجحانات خاص توجہ کے لائق ہیں۔ مثلاً نیچرل شاعری کی تحریک جس میں محمد حسین آزاد کے علاوہ مولانا الطاف حسین حالی بھی برابر کے شریک تھے۔ قدیم طرز شاعری سے انحراف بھی اسی تحریک کا ایک جزو ہے۔ اردو تنقید جدید کا آغاز بھی سرسید احمد خان اور ان کے رفقاء سے ہوتا ہے۔ سوانح نگار، سیرت نگاری، ناول اردو نظم اور مضمون نگاری سب کچھ ہی سرسید تحریک کے زیر اثر پروان چڑھا۔
علی گڑھ مسلم طلبہ کا سب سے بڑا مرکز تھا اور قومی معاملات میں مرکزی کردار ادا کرنے کی استعد اور کھتا تھا۔ پاکستان کی تحریک شروع ہوئی تو بہت سے طلبہ جو بر صغیر کے مختلف حصوں سے آئے تھے شامل ہونے لگے۔ جلد ہی علی گڑھ میں مسلمان طلبہ کا ایک کیمپ منعقد ہوا جس میں مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر راجہ صاحب محمود آباد بھی شریک ہوئے۔ وہیں پر مولانا محسن علی عمرانی) ڈیرہ اسما عیل خان کی ملاقات علامہ راغب احسن سے ہوئی۔ دونوں کی ملاقاتوں اور ایک جیسی فکر و سوچ کی بدولت جلد ہی یہ تعلق دوستی میں تبدیل ہو گیا۔ بتاتا چلوں کہ علامہ راغب احسن وہ عہد ساز شخصیت تھیں کہ جب قائد اعظم محمد علی جناح 1935ء میں برطانیہ سے ہندوستان تشریف لائے تو دلی کی سر زمین پر تین اہم شخصیتوں محمد علی جناح، علامہ اقبال اور علامہ راغب احسن نے ایک کمرے میں بیٹھ کر گھنٹوں ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت زار اور عالمی حالات و واقعات پر باتیں کیں۔ 1940 میں تعلیم مکمل کرنے بعد جب ڈیرہ اسماعیل خان واپس آئے تو لکھنو اور علیگڑھ میں تحریک پاکستان اور مختلف شخصیات خصوصا علامہ راغب احسن سے متاثر ہو کر مقامی نوجوانوں کو جمع کر کے علامہ راغب احسن کے حکم پر اور شہزادہ فضل داد خان جو کہ بحیثیت صدر مسلم لیگ، محمد نواز خان اور جنرل سیکریٹری مولاداد خان بلوچ کام کر رہے تھے کہ مکمل تعاون اور سرپرستی کے نوجوانان مسلم لیگ کی بنیاد ڈالی اور سب سے پہلے جنرل سیکرٹری ہونے کا اعزاز حاصل کیا اور جوانوں کو یکجا کر کے بزرگوں کے ہاتھ مضبوط کیے۔