Criticism and creativity Literature Urdu
تنقید اور تخلیق کار شتہ
تنقید اور تخلیق کے باہمی رشتے کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح شاعر یا ادیب فن کی تخلیق سے پہلے کسی نہ کسی مفہوم میں ناقد ہوتا ہے۔ اسی طرح ناقد کو بھی تنقید سے پہلے فن پارے میں مضمر تاثرات و تجربات سے اسی طرح گزرنا ہوتا ہے جس طرح اس فن پارے کا خالق پہلے گزر چکا ہوتا ہے۔ یعنی فنکار اپنے تجربات و تاثرات کے انتخاب اور ترتیب میں ناقدانہ عمل کرتا ہے۔ علاوہ ازیں فن کی روایت اور تکنیک سے بھی اس کی واقعیت ضروری ہے، جس کے باعث وہ خود اپنے فن پر تنقیدی نظر ڈال سکتا ہے۔ جس طرح فن کی تخلیق سے پہلے فن کار اپنے مواد کے رد و قبول اور روایت فن کے بارے میں تحقیدی عمل سے گزرتا ہے اسی طرح فن کی تخلیق کے بعد بھی اسے ناقد بنا پڑتا ہے۔ وہ خود اپنے تخلیق کردہ فن پارے کو بہ حیثیت ناقد دیکھتا ہے۔ اس کے حسن و جی پر نظر ڈالتا ہے، اس میں ترمیم و تنسیخ کرتا ہے۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فن کی تخلیق سے پہلے اور فن کی تخلیق کے بعد تخلیقی فن کار ناقد کا رول ادا کرتا ہے۔ ناقد کو بھی کچھ اسی قسم کی صورت حال در پیش ہوتی ہے۔ وہ تنقید کرنے سے پہلے کسی فن پارے کے مشاہدات و تخیلات، تجربات و تاثرات سے اسی طرح گذرتا ہے جیسے فنکار گزرا تھا۔ وہ تخلیقی فن پارے کو اپنی ذات کا مکمل تجر بہ بنا کر ہی اس کے حسن و قبح کا انداز ہوکر سکتا ہے۔ کسی نظم کا تجزیہ کرنے سے پہلے وہ اسے اپنی ذات میں حل کرتا ہے۔ یہاں تک کہ فن کار کا تاثر اس کا اپنا تاثر اور فن کار کے جذبات اور احساسات اس کے اپنے جذبات اور احساسات بن جاتے ہیں۔ اس کے بغیر وہ فن پارے کی ہمدردانہ وضاحت نہیں کر سکتا۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں ناقد کو تخلیقی فن کار کی طرح مشاہدے اور تجربات کی وسعت اور جذبات کی شدت کا حامل ہونا چاہیے ورنہ وہ فن پارے کے ساتھ انصاف نہیں کر سکے گا۔ اور اس کے لئے وہ ہمہ وقت مطالعے اور مشاہدے سے اپنے ذوق کی تربیت کرتا ہے۔ وہ فن کار کی طرح فن کی روایت اور تکنیک سے بخوبی واقف ہوتا ہے۔ اور کم از کم ہر اچھے ناقد سے ہم ان تمام صلاحیتوں کا تقاضا کرتے ہیں۔ تنقید اور تخلیق کے درمیان ایک اور رابطہ ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے مشعل راہ ہوتی ہیں۔ اس بحث میں پڑے بغیر کہ ان دونوں میں کسے اولیت ہے، اگر ہم ادب کی تاریخ کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ یہ دونوں صلاحیتیں ایک دوسرے کے فروغ کے لئے محد و معاون ہوتی ہیں۔ تنقیدی اصول ہمیشہ فنی تخلیقات کی بنیاد پر استوار ہوتے اور عظیم فن پاروں سے اخذ کئے جاتے ہیں۔ مگر ایک بار جب یہ اصول وضع کر لئے جاتے ہیں تو آئندہ وفی تخلیق کی رہنمائی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ارسطو نے اپنی کتاب بوطیقا میں فن کے جو اصول پیش کئے ہیں ، وہ اس نے یونان کے عظیم ڈرامہ نگاروں کو سامنے رکھ کر وضع کئے تھے۔ لیکن ارسطو کی بوطیقا صدیوں تک تخلیق فن کے لئے مشعل راہ بنی رہی اور آج بھی مستند ہے۔ بسا اوقات اس کے برعکس بھی ہوتا ہے۔ انگلستان میں سڈنی کی تحقید کے اخلاق اور اصلاحی پہلو سے متاثر ہو کر دور ایلز بتھ کے مشہور شاعر سپنسر نے اپنی تمثیل فیری کو مین لکھی۔ ہمارے اپنے ادب کے لئے آزاد کے لیکچر اور حالی کا مقدمہ اردو شاعری کی ایک انقلابی رو کی بنیاد ٹھہرے۔ آزاد اور حالی نے اپنے تنقیدی تصورات کے ذریعے اردو شاعری میں موضوع اور تکنیک کے لئے نئے راستے ہموار کئے اور اس طرح ہماری زبان میں نئے شعری تجربات کی بنیاد ڈالی۔
اس کے باوجود تنقید جلد ہی ایک قسم کا تعصب بھی بن جاتی ہے۔ معاشرے کے بندھے نکے اصولوں کی طرح یہ ہر فنی تخلیق کو شک کی نظر سے دیکھنے لگتی ہے۔ ایسی صورت میں تخلیق ایک انقلابی رول ادا کرتی ہے۔ یعنی یہ تنقید کے پرانے اصولوں کو توڑ کر اپنے پر کھے جانے کے لئے نئے معیارات اور نئی کسوٹیاں بنواتی ہے۔ ورڈزور تھے اور ٹی ایس ایلیٹ کا جو اپنے زمانے کے عظیم نقاد اور عظیم شاعر مانے جاتے ہیں، کا یہ کہنا ہے کہ ہر عظیم فن پارواپنے تحقیدی اصولوں کو لے کر پیدا ہوتا ہے۔ یعنی یہ کہ ہم کسی ایسی تخلیق کو جو فی الوقعی نئی ہو اور ساتھ کسی عظمت کی حامل ہو تنقید کی پرانی کسوٹی پر پر کھ نہیں سکتے۔ اس طرح ہمیں کسی عظیم شاعر کی عظمت دیکھنا ہو تو ہم اسے یوں بھی دیکھ سکتے ہیں کہ آیا وہ اپنے سے پہلے کے تحقیدی اصولوں میں ترمیم و تنسیخ کے لئے جواز پیدا کرتا ہے یا نہیں۔ ایسا شاعر جو اپنے زمانے کے تقیدی اصولوں پر مکمل طور پر پورا اترے وہ اچھا شاعر تو ہو سکتا ہے عظیم شاعر نہیں ہو سکتا۔ لیکن اس مقام پر ہمیں تھوڑا سا چوکنا ہو جانا چاہیے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم ہر ایسی تخلیق کو جو محض اچھنبا پیدا کرے یا ادب کی دنیا میں خلفشار اور انتشار کا باعث ہو عظیم شاعری کے زمرے میں شمار کر رہے ہیں ؟ ہمیں چاہیے کہ ہم ایسی تخلیقات کو سرے سے فن پارہ اننے سے انکار کر دیں اس لئے کہ تخلیق کے معنی بنانے کے ہیں، بگاڑنے کے نہیں، فن بنیادی طور پر تعمیری عمل ہے اور اس کا تخریب وانتشار سے کوئی تعلق نہیں۔