Urdu writer Sir Syed Ahmad Khan
سرسید احمد خان
تاریخ پیدائش اور وفات
(۱۸۱۷ ۱۸۹۸ء)
سرسید کے مورث اعلیٰ شاہ جہاں کے عہد میں ہندوستان آئے تھے ۔ مغلیہ دربار کے بڑے عہدوں پر فائز رہے۔ سرسید نے رواج زمانہ کے مطابق تعلیم پائی۔ سب سے پہلے عدالت میں بطور سر رشتہ دار کام کیا، پھر ترقی کر کے منصف ہو گئے۔ سرکاری ملازمت کے باوجود سرسید مسلمانان ہند کی اصلاح کے لیے برابر کوشاں رہے۔ انھوں نے پہلے ایک انگریزی سکول مراد آباد اور غازی آباد میں کھولا ۔ ۱۸۷۵ء میں علی گڑھ کالج کی بنیاد رکھی جو بعد ازاں ہندی مسلمانوں کا سب سے اہم تعلیمی ، سیاسی اور ادبی مرکز قرار پایا۔ انگریزی سے اُردو میں تراجم کے لیے سائنٹیفک سوسائٹی قائم کی ۔ ۱۸۷۰ء میں علمی وادبی رسالہ تہذیب الاخلاق جاری کیا۔ اس رسالے کی پرور دو نسل نے ہماری اجتماعی زندگی پر گہرے اثرات ڈالے۔
سرسید نے اردو میں مضمون کی صنف کو رواج دیا۔ خود کثرت سے مضامین لکھے اور اپنے رفقا سے قومی تعلیمی ، مذہبی، اخلاقی موضوعات پر مضامین لکھوائے ۔ سرسید کا اسلوب نگارش ، سادہ ، سہل، بے ساختہ اور تصنع سے پاک ہے۔ بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق کا کہنا ہے:
من جملہ بے شمار احسانات کے جو سرسید نے ہماری قوم پر کیے، ان کا بہت بڑا احسان اُردو زبان پر ہے۔ انھوں نے زبان کو پستی سے نکالا ، انداز بیان میں سادگی کے ساتھ وسعت پیدا کی۔ سنجیدہ مضامین کا ڈول ڈالا، جدید علوم کے ترجمے کرائے، بے لاگ تنقید اور روشن خیالی سے اُردو ادب میں انقلاب پیدا کیا ۔
سرسید ایک بڑے مصلح اور معمار قوم ہونے کے علاوہ اعلیٰ درجے کے مصنف بھی تھے۔ انھوں نے چھوٹی بڑی تمہیں سے زائد کتابیں لکھیں ۔ تقریریں ، خطوط اور مضامین کے مجموعے ان کے علاوہ ہیں۔ ان کی اہم تصانیف میں " آثار الصنادید ، "رسالہ اسباب بغاوت ہند " " تبین الکلام " خطبات احمدیہ اور تفسیر قرآن شامل ہیں۔
سر سید احمد خان کی تصانیف۔
1.نثری کتاب خطابات احمدیہ
ولیم میور کی کتاب" Life of Muhammad" کے جواب میں لکھی۔
2.نثری کتاب رسالہ اسباب بغاوت ہند
جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد انگریزوں نے مسلمانوں کو اپنا دشمن اولین گردانا اور ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے تو نثر نگار مضمون نگار سر سید نے یہ رسالہ لکھ کر اس کی 502 کاپیاں تیار کیں اور برطانوی ارکان پارلیمنٹ کو بھجوائیں جس میں انہوں نے جنگ آزادی کی وجوہات بیان کیں اور ارکان پارلیمنٹ کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ جنگ آزادی غدر نہیں تھا بلکہ ہندوستان کے لوگوں نے اپنی آزادی حاصل کرنے کی کوشش کی تھی
3.نثری کتاب ہنٹر کی کتاب پر ریو
ہنٹر نے کتاب لکھی جس میں اس نے مسلمانوں کی اور بہت سی خامیاں گنوانے کے بعد ایک الزام یہ بھی لگایا کہ مسلمان انتہا پسند اور جھگڑالو ہیں اس کے جواب میں سر سید نے ریویو لکھا
4.نثری کتاب آثار الصنادید
یہ آثارِ قدیمہ سے متعلق کتاب ہے جس میں سر سید نے دہلی کی عمارات، کھنڈرات اور پرانے مدارس کا ذکر کیا ہے۔ 1857 میں اس کے اکثر نسخے تلف ہو گئے تھے
5. تاریخ سرکشی بجنور
1857 کی جنگ آزادی کے دوران بجنور کے حالات کو سر سید نے اپنے انداز میں پیش کیا ہے اور انگریزوں سے وفاداری کو نبھایا ہے
6.نثری کتاب تبیین الکلام
انگریزوں سے تعلقات کو خوش گوار بنانے کے لیے سر سید نے ایک یہودی سے عبرانی زبان سیکھی اور بائبل سے احکاماتِ دیکھے اور بائبل کی تفسیر لکھی اور بائبل کو غیر تحریف شدہ اور اس کے احکام کو اسلام کے عین مطابق قرار دیا
7.نثری رسالہ احکام طعام اہل کتاب
اس کتاب میں سر سید نے لکھا کہ مسلمان اہل کتاب کے ساتھ کھانا بھی کھا سکتے ہیں اور سماجی تعلقات بھی رکھ سکتے ہیں
8. نثری کتاب قرآن کریم کی تفسیر
سر سید احمد خان نے قرآن کریم کی تفسیر کی سات جلدیں مرتب کیں تھی اور اس میں مافوق الفطرت نظریات کی عقلی توجیہ پیش کی تاکہ انگریز قرآن کریم کی کسی چیز کو خلاف عقل کہہ کر اعتراض نہ کریں۔ اس تفسیر کو مسلمان عوام نے خلاف مذہب قرار دیا
9. سیرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
سر سید نے ابتدائی عمر میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بھی کتاب لکھی
10.نثری کتاب رسالہ تہذیب الاخلاق
سر سید نے یہ رسالہ 24 دسمبر 1870ء کو جاری کیا۔ 1876 میں یہ رسالہ بند کر دیا گیا۔ 1879 کو پھر جاری ہوا اور 1882 میں پھر بند ہو گیا۔ 1884 میں تیسری مرتبہ جاری ہوا لیکن 1887 میں اسے علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں شامل کر دیا گیا۔ اس رسالے نے اردو زبان کی بہت خدمت کی اور مولانا ابوالکلام آزاد کے مطابق اسی رسالے سے جدید اردو ادب کی تاریخ کا آغاز ہوا۔ اس دور کا ہر مسلمان ادیب رسالہ تہذیب الاخلاق سے متاثر ہوا۔
ایک بات ضرور پیش نظر رہے کہ جس دور میں سر سید لکھ رہے تھے وہ انگریزوں کے عروج کا زمانہ تھا اور انہوں نے مسلمانوں سے نیا نیا اقتدار چھینا تھا اور اب بھی مسلمان ہی ان کو ایسی طاقت لگ رہے تھے جو پھر کسی وقت ان سے اقتدار چھیننے کے قابل ہو سکتے تھے۔ اس لئے مسلمان ان کے عتاب کا شکار تھے اور سر سید یہ داغ دھونا چاہتے تھے جو اس وقت کا تقاضا تھا اور اب یہ کام ہمیں خوشامد معلوم ہوتا ہے۔