اردو ادب کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ
Sahib e Deewan Shayera lutaf ul Nisa
لطف النساء نام اور امتیاز تخلص، اردو کی پہلی صاحبِ دیوان شاعرہ ہیں۔ عام طورپرمہ لقا چندا کو پہلی صاحبِ دیوان شاعرہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ چندا کی شاعری کا دیوان1798ء میں مرتب ہوا۔ اس کے دیوان کا آخری ایڈیشن مجلس ترقی ادب، لاہور سے 1990ء میں شائع ہوا۔ اس کے مرتب شفقت رضوی ہیں۔
انہوں نے کئی تذکروں کے حوالے سے کہا کہ پہلی صاحب دیوان شاعرہ لطف النساء امتیاز قرار دی جانی چاہیے کیونکہ ان کا دیوان 1212ء (بمطابق 1797ء) یعنی چندا کے دیوان سے ایک سال قبل مرتب ہوا۔ شفقت رضوی نے مزید لکھا ہے کہ ’’باوجود اس محققانہ انکشاف کے چندا کی عظمت اور اس کے کلام کی قدامت پرحرف نہیں آتا۔ جو شہرت اس کے حصے میں آئی وہ گویا عطیہ الٰہی ہے‘‘۔ یقینا شہرت و مقبولیت چندا کے حصے میں آئی لیکن بہرحال حقائق کی بنیاد پر لطف النساء امتیاز ہی اردو کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ ہے۔
البتہ تخلص کی بناء پراسے پہلے مرد سمجھا جاتارہا لیکن بعد میں اس کی ایک مثنوی ’’گلشن شعراء‘‘ کی دستیابی سے علم ہوا کہ امتیاز عورت ہے۔ ڈاکٹر سلیم اختر نے نصیرالدین ہاشمی کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ مثنوی چھ ہزار اشعار پرمشتمل ہے۔ مثنوی میں اس کے اپنے بیان کے مطابق چھتیس (36) برس کے سن میں دیوان مرتب ہوا۔ چونکہ دیوان 1212ھ میں مرتب ہونے کی صراحت کی گئی ہے۔ اس لیے امتیاز کی پیدائش 1176ھ میں ہوئی۔
شوہر کے انتقال کے وقت لطف النساء نوجوان تھی۔ دیوان کے بارے میں نصیرالدین ہاشمی نے یہ معلومات بہم پہنچائی ہیں۔ 156صفحات پرمشتمل دیوان میں 96 صفحات پرغزلیں ہیں۔ ان کے علاوہ 15رباعیاں اور 5قطعے بھی ہیں۔ مزید برآں مسدس، فردیات اورقصائدہ وغیرہ بھی ہیں۔ الغرض دیوان اور بالخصوص مثنوی سے اس کے فن کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔
غزل کی زبان صاف اورمضامین روایتی ہیں۔ جب کہ بات مردانہ لب و لہجہ میں کی گئی ہے۔ شاید اسی لیے پہلے اسے مرد سمجھا گیا ۔ ان کی غزل کے دو چار شعر دیکھیں: منہ پر جب زلف کج خمدار جھکا صبح روشن پہ گویا ابر گل ہر بار جھکا آب رواں ہو سبزہ ہواور گلزار ہو ساقی ہوجام اور بغل میں نگار ہو شور صحرا میں مرے آنے کی کچھ دھوم سی ہے عمل قبس کے اٹھ جانے کی کچھ دھوم سی ہے