اقبال کی نظم جواب شکوہ
جواب شکوہ
”شکوہ“ کے جواب میں نظمیں دیکھ کر اقبال کو خود بھی دوسری نظم ”جواب شکوہ“ لکھنی پڑی جو 1913ء کے ایک جلسہ عام میں پڑھ کر سنائی گئی۔ انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں ”شکوہ “ پڑھی گئی تو وسیع پیمانے پر اس کی اشاعت ہوئی یہ بہت مقبول ہوئی لیکن کچھ حضرات اقبال سے بدظن ہو گئے اور ان کے نظریے سے اختلاف کیا۔ ان کا خیال تھا کہ ”شکوہ“ کا انداز گستاخانہ ہے۔ اس کی تلافی کے لیے اور یوں بھی شکوہ ایک طرح کا سوال تھا جس کا جواب اقبال ہی کے ذمے تھا۔ چنانچہ ڈیڑھ دو سال کے عرصے کے بعد انہوں نے ”جواب شکوہ“ لکھی۔ یہ 1913ء کے جلسے میں پڑھی گئی۔ جو نماز مغرب کے بعد بیرونی موچی دروازہ میں منعقد ہوا تھا۔ اقبال نے نظم اس طرح پڑھی کہ ہر طرف سے داد کی بوچھار میں ایک ایک شعر نیلام کیا گیا اور اس سے گراں قدر رقم جمع کرکے بلقان فنڈ میں دی گئی۔ شکوہ کی طرح سے ”جواب شکوہ“ کے ترجمے بھی کئی زبانوں میں ملتے ہیں۔
فکری جائزہ
شکوہ میں اقبال نے انسان کی زبانی بارگاہ ربانی میں زبان شکایت کھولنے کی جرآت کی تھی یہ جرآت عبارت تھی اس ناز سے جو امت محمدی کے افراد کے دل میں رسول پاک سے عقیدت کی بناءپر پیدا ہوتی ہے۔ جواب شکوہ درحقیقت شکوہ کا جواب ہے۔ شکوہ میں مسلمانوں کی زبوں حالی بیاں کی گئی تھی اور اس کی وجہ پوچھی گئی تھی پھر وہاں مایوسی اور دل شکستگی کی ایک کیفیت تھی ۔”جواب شکوہ“ اس کیفیت کی توجیہ ہے اور شکوہ میں اٹھائے جانے والے سوالات کے جواب دیے گئے ہیں۔ جواب شکوہ میں اسلامی تاریخ کے بعض واقعات اور جنگ بلقان کی طرف بھی اشارے ملتے ہیں۔ نظم کے موضوعات و مباحث کے مطالعہ سے ہم اسے ذیل کے عنوانات میں تقسیم کرتے ہیں۔
شکوہ کی اثر انگیزی
پہلے پانچ بندوں میں انسان نے اللہ تعالٰیٰ سے جو شکوہ کیا تھا اس کا رد عمل اور اثر انگیزی کو بیان کیا گیا ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ میرا نالہ یا فریاد اس قدر بھرپور اور پرُ تاثیر ہے کہ آسمانوں پر بھی اس کی بازگشت سنی گئی۔ آسمانوں اور اس کے باسیوں میں میرے اس گستاخانہ شکوے سے کھلبلی مچ گئی اور یہی ان کا موضوع سخن ٹھہرا۔ اہل آسمان حیران تھے کہ یہ کون نادان ہے جو خدا سے شوخی کا مرتکب ہو رہا ہے پیر گردوں کچھ کہتا ہے سیارے کچھ اور چاند کچھ
چاند کہتا تھا نہیں اہل زمیں ہے کوئی
کہکشاں کہتی تھی پوشیدہ یہیں ہے کوئی
جب فرشتوں کو معلوم ہو ا کہ یہ شکوہ کرنے والا انسان ہے تو فرشتوں کو اس بات کا افسوس تھا کہ پستی کا یہ مکین بات کرنے کا سلیقہ بھی نہیں جانتا ہے۔
ناز ہے طاقت گفتار پر انسانوں کو
بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو
جہاں تک شوخی و گستاخی کا تعلق ہے علامہ مرحوم سے پہلے ہی صوفیا اپنی شطحیات (صوفیوں کی لاف زنی) میں اس سے زیادہ گستاخانہ انداز ِ تخاطب اختیار کر چکے ہیں۔ بہر حال انسان کے اس انداز ِ شکوہ کا اثر یہ ہوا کہ خود خدا نے شکوہ کے حسن ادا کو سراہا اور پھر جواب مرحمت فرمایا۔
شکر شکوے کو کیا حسن ادا سے تونے
ہم سخن کر دیا بندوں کو خدا سے تونے
جواب شکوہ کی تمہید
چھٹے بند میں خدا کی طرف سے ”شکوہ“ کا حوالہ دے کر جواب دیا گیا ہے۔ شکوہ میں شاعر نے مسلمانوں کی بدحالی اور بے چارگی کا سبب اللہ کے مسلمانوں پر عدم لطف و کرم کو قرار دیا تھا۔ جبکہ ”جواب شکوہ“ میں اللہ اس کا جواب دیتا ہے اور فرماتے ہیں کہ ہم تو عنایت و مدارات کرنے کے لیے تیار ہیں مگر کوئی سائل ہے اور نہ ہی امید وار لطف و کرم ،ہم تو انسان کی ہر خواہش پوری کرنے کے لیے تیار ہیں اور اگر مسلمان اپنی نیت میں اخلاص اور عمل میں گہرا پن لے آئے تو خاکستر سے بھی ایک نیا جہاں پیدا ہو سکتا ہے۔
ہم تومائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے؟ رہرو منزل ہی نہیں
”شان کئی “سے مراد کیانی خاندان کے بادشاہوں کی طرف ہے۔ کیونکہ اس خاندان کے نام سے پہلے ”کے “ کا لفظ آتا ہے۔ مثلاًکیقباد، کے خسرو
کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
آخری مصرعے میں کیی قبیلے کی جدوجہد کی طرف اشارہ ہے جنہوں نے کئی نسلوں سے اللہ کی راہ میں خانہ بدوشی کی زندگی کاٹی اور منگولوں، ص ل ی ب و ں اور تمام ک ف ا ر کی سازشوں کو خاک میں ملا کر اپنی ریاست قائم کی جو بعد میں عظیم سلطنت ع ث م ا ن ی ہ بن گئی۔
حالت زار کے حقیقی معنی
آگے چل کر اس نظم میں قوم کی حالت زبوں کے حقیقی اسباب کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ اور اقبال کے نزدیک اس کا بنیادی سبب مذہب سے بے اعتنائی ہے جس کی وجہ سے امت کی صفوں میں فکری اعتبار سے الحاد و کفر اور لادینیت کی تحریکیں پروان چڑھ رہی ہیں۔ اور اس لیے ان کے اندر سے مذہب کی حقیقی روح ختم ہو گئی ہے۔ شکوہ میں ا م ت نے فریاد کی تھی کہ،
صفحہ دہر سے باطل کو مٹا یا ہم نے
نوع انساں کو غلامی سے چھڑایا ہم نے
یہاں ”جواب شکوہ“ میں اس دعوی
ٰ کی تردید کی جا رہی ہے اور تردید کا رنگ طنز کی شکل میں بدل گیا ہے۔ درحقیقت اس نظم کے اس حصے میں اقبال نے امت کو فکری و اعتقادی گمراہیوں، کجرویوں اور عملی کمزوریوں کو بڑے موثر انداز میں بے نقاب کیا ہے۔ اور جب اقبال یہ کہتے ہیں
تم سبھی کچھ ہو بتائو تو مسلمان بھی ہو
تو پڑھنے والا یہ پڑھ کر اور سننے والا سن کر تڑپ اٹھتا ہے اس حصے میں اقبال نے بہت ہی معنی خیز اشعار کہے اور ا م ت کو جو ب ت پرست کہا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ب ت و ں کی پوجا کرتے ہیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ”امر بالمعروف اور نہی عن المنکر“ کا فریضہ انجام دینے کا وعدہ کرتے ہیں لیکن عملاً یہ ہوتا ہے کہ دنیاوی آقاؤں کی خوشنودی کے لیے سب کچھ کیا جاتا ہے اور صوم و صلوة سے بے پروا ہو جاتے ہیں۔ اس معنی میں ہم صنم گر ہیں اور حضرت ابراہیم کی طرح صنم شکن نہیں۔ ہمارے ابا واجداد سنت ابراہیمی پر چلتے تھے اور ہم سنت آزری پر
بت شکن اُٹھ گئے، باقی جو رہے بت گر ہیں
تھا ابراہیم پدر اور پسر آذر ہیں
علامہ اقبال یہاں ایک ایک اہم کام کی نشان دہی کرتے ہیں اور وہ یہ کہ مسلمانوں میں سحر خیزی بالکل ختم ہو گئی ہے اور سویرے اٹھنا ان کے لیے مشکل ہے۔
کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے!
ہم سے کب پیار ہے؟ ہاں نیند تمہیں پیاری ہے
یہاں اقبال تقدیر کے ناقص تصور کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ جس نے قوم کو بے عمل بنا دیا اور سب کچھ تقدیر پر چھوڑ دیا اور ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھے رہتے ہیں۔
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو
اقبال کے خیال میں قوم کبھی اپنی میراث سے کنارہ کش نہیں ہوتی ۔ لیکن آج کے مو من میں سب سے زیادہ کمزوری یہی ہے کہ وہ اپنی میراث کو بھول چکا ہے۔ کیونکہ میراث کا حقدار بننے کے لیے اپنے آباءکی طرح توحید کے ضابطے کی پابندی لازمی ہے اور موجودہ مسلمان توحید کی افادیت سے نا آشنا ہو کر رہ گیا ہے۔
تھے تو آبا وہ تمہارے ہی، مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فرد ا ہو
اسلاف سے موازنہ
نظم کے اس حصے میں امت کی بے چارگی اور زبوں حالی کے سلسلہ بیان میں ان کی انفرادی اور اجتماعی خامیوں کو اجاگر کیا ہے اور اقبال نے مسلمانوں کے اسلاف کا ذکر کیا ہے۔ اقبال کا خیال ہے کہ ہمارے اسلاف اپنے اخلاق و کردار علم و فضل اور گفتار و کردار کے اعتبار سے اس قدر بلند مرتبت اور عظیم تھے کہ ہمارے اور ان کے درمیان زمین وآسمان کافرق ہے۔ بھلا ان کا اور ہمارا کیا مقابلہ ہو سکتا ہے۔
علامہ اقبال نے جدید تعلیم اور اس کے زیر اثر پیدا ہونے والی معاشرتی اور مجلسی خرابیوں پر تنقید کی ہے۔ یہ صورت حال منطقی ہے توجیہ یہ پیش کی ہے کہ اگر بیٹا نکھٹو ہو تو اسے باپ کی جائیدا د سے عاق کر دیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ یہی کچھ ہوا۔ مسلمانوں کے بزرگوں نے اسلام کی وجہ سے دنیا میں عزت پائی اور تم قرآن چھوڑ کر ذلیل و خوار ہوئے بزرگوں سے تمہیں کیا روحانی نسبت ہے ۔
ہر کوئی مست مئے ذوقِ تن آسانی ہے
تم مسلمان ہو؟ یہ اندازِ مسلمانی ہے؟
حیدری فقر ہے، نے دولت عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبتِ روحانی ہے
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک ِ قرآں ہو کر
لیکن اس مایوسی کے باوجود اقبال مایوس نہیں وہ اپنی قوم کو پیغام دیتے ہیں کہ، امت کو چاہیے کہ اس آزمائش کے کڑے دور میں اپنے ایمان میں حضرت ابراہیم کی سی پختگی عزم اور یقین پیدا کر دیں تاکہ زمانے کی برق و آتش زنی ان کے لیے گل و گلزار بن جائے۔
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
شکوہ کی طرح جواب شکوہ میں بھی قوم کی پستی اور زبوں حالی کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ جس سے مایوسی کی ایک کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ لیکن اس مایوسی کو ختم کرنے کے لیے اقبال قوم کو اطمینان دلاتے ہیں کہ ہاتھ پاؤں توڑنا بھی مردانگی کے زمرے میں نہیں آتا۔ یہاں سے امید کا پیغام شروع ہوتا ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ امت کا ازسرنو عروج قریب آگیا ہے۔ اس کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں۔ امت اور اسلام کبھی مٹ نہیں سکتے۔
رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنابی ہے
یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے
پر امید مسقبل
جس دور میں اقبال نے یہ نظم لکھی اس وقت عالم اسلام میں مایوس کن واقعات کی بھرمار تھی۔ 1912ءمیں بلقان نے ترکی پر حملہ کر دیا۔ بلغاریہ میں شورش بپا ہوئی۔
(ہے جو ہنگامہ بپا یورش بلغاری کا)
ایران میں روس نے پیش قدمی کی لیکن ایسی حالت میں اقبال نے قوم کو پیغام دیا کہ انہیں ان باتوں سے شکستہ دل نہیں ہونا چاہیے قوموں کی تاریخ میں نشیب و فراز تو آتے رہتے ہیں۔ اسلام کو کوئی بھی مٹا نہیں سکتا کیوں کہ اس کے پس منظر میں سینکڑوں برس کی جدوجہد اور طاقتور عوامل کار فرما ہیں
اس کے علاوہ انسان کی ظاہر ی آنکھ احوال و واقعات کی تہ میں چھپے ہوئے حقیقی عوامل کا پتہ نہیں لگا سکتی۔ اقبال کے نزدیک
بہت ممکن ہے کہ ظاہری آفت ان کے لیے کسی وقت باعث رحمت ثابت ہو۔ جیسے کہ فتنہ تاتار کے سلسلے میں ہوا۔ پہلے تو انہوں نے اسلام کو تہس نہس کیا لیکن بعد میں جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو یہی لوگ اسلام کی امین بنے اور دنیا کی کئی بڑی بڑی اسلامی سلطنتوں کی بنیاد ڈالی۔
ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
اقبال امت کو حوصلہ دیتا ہے کہ یہ وقت ہمت ہارنے کا نہیں ہے بلکہ میدانِ عمل میں نکل کر مقابلہ کرنے کا ہے۔ اور قوم کو ان کے اہم فرائض کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔
وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے
دعوت عمل
آگے چل کر علامہ اقبال قوم کو دعوت عمل دیتے ہیں۔ یہ نظم کا آخری حصہ ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ اے قوم کے لوگو! ہماری قوت کا راز جذبہ عشق میں مضمر ہے اور اس کا سرچشمہ حضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔ چونکہ اُن کا مرکزی نقطہ عشق رسول ہے اس لیے ”جواب شکوہ“ کے آخری حصے میں جذبہ عشق سے سرشار وہی والہانہ کیفیت موجود ہے جو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ذکر کرتے ہوئے اقبال پر عموماً طاری ہوتی تھی۔ موذن رسول حضرت بلال عشق رسول کا مثالی پیکر تھے اور ان کا تعلق افریقہ کی سرزمین جیش سے تھا اس لیے تذکرہ رسول کے ضمن میں بلالی دنیا (جیش ) کا ذکر بھی کیاہے۔ آخری بند میں اقبال حق کے لیے جدوجہد کی تلقین کرتے ہیں اے قوم کے لوگو! عقل تمہاری ڈھال اور عشق تلوار ہے۔
مرے درویش! خلافت ہے جہانگیر تری
آخر ی شعر کا مفہوم یہ ہے کہ اگر مسلمان آپﷺ کے اسوہ حسنہ کی پیروی کریں تو پھر تقدیر بھی ان کے آگے سرنگوں ہو جائے گی۔ اور کائنات ان کے تصرف میں ہوگی۔ اقبال نے عمر بھر ایسے لاثانی اشعار لکھے ہیں لیکن یہ شعر اپنی جگہ منفرد ہے۔
کی محمدﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
فنی جائزہ
”جواب شکوہ “ مسدس ترکیب بند کی ہیت میں 32 بندوں پر مشتمل ہے۔ یہ بحر رمل مثمن مخبون مقطوع میں ہے۔ بحر کے ارکان یہ ہیں۔
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
انداز اور لہجہ
”جواب شکوہ“ چونکہ شکوہ کے جواب میں لکھی گئی اس لیے اس کا انداز دوسری طویل نظموں کے بر عکس براہ راست خطاب کا ہے۔ اللہ کی طرف سے مسلمانوں کو یا پوری امت مسلمہ کو خطاب کرتے ہوئے شکوہ کا جواب دیا گیا ہے۔ براہ راست اندازِ تخاطب کی وجہ سے نظم میں علامتی اور ایمائی رنگ بہت معمولی ہے۔ اس لیے ”جواب شکوہ“ میں تغزل نہ ہونے کے برابر ہے۔ نظم کا لہجہ شروع سے آخر تک یکساں نہیں ہے کئی مقامات پر لہجہ دھیما ہے جہاں مسلمانوں کی فکری اور عملی گمراہیوں کی نشان دہی کی گئی ہے۔ وہاں تنقیدی لہجہ ہے اس کے علاوہ طنزئیہ لب و لہجہ بھی اختیار کیا گیا ہے۔ مثلاً
تم میں حوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں جلوہ طور تو موجود ہے موسی ہی نہیں
قلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغام ِ محمد کا تمہیں پاس نہیں
بعض جگہوں پر تاسف کا لہجہ پایا جاتا ہے
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
آخر میں اقبال دعوت عمل دیتے ہیں اور اہل اسلام کو پیغام پھیلانے اور رسول کے نام کو زندہ و تابندہ کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ یہاں لہجہ پر جوش ہے۔
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم ِ محمد سے اجالا کر دے
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح قلم تیرے ہیں
ڈرامائی کیفیت
”جواب شکوہ“ کے پہلے چھ بندوں میں ڈرامائی کیفیت موجود ہے اس میں اہل آسمان یعنی سیاروں، کہکشاں، چاند اور فرشتوں کی زبانی اس ڈرامے کے مختصر مکالمے کہلوائےگئے ہیں۔ ان مکالموں اور گفتگو کی وجہ سے نظم میں ڈرامائیت آجاتی ہے۔ ڈرامے کے کلائمیکس پر ایک آواز آتی ہے جو اہل آسمان کے سوالات کا جواب ایک طویل مکالمے کی صورت میں دیتی ہے یہ آواز اس ڈرامے کا آخری اور سب سے اہم کردار ہے
آئی آواز غم انگیز ہے افسانہ تیرا
اشک ِ بیتاب سے لبریز ہے پیمانہ تیرا
آسماں گیر ہوا نعرہ مستانہ تیرا
کس قدر شوخ زباں ہے دل دیوانہ تیرا
شکر شکوے کو کیا حسن ادا سے تونے
ہم سخن کر دیا بندوں کوخدا سے تونے
تشبیہ استعارات اور تصویر کاری
اقبال تشبیہ واستعارہ کے بادشاہ ہیں۔ جواب شکوہ میں اقبال نے متعدد خوبصورت تشبیہات کا استعمال کیا ہے۔
ٍ بت شکن اُٹھ گئے باقی جو رہے بتگر ہیں
تھا ابراہیم پدر اور پسر آزر ہیں
”جواب شکوہ“ کے فنی بانکپن اور عظمت کے ضامن اس کے تراشیدہ استعارات ہیں جو معنویت کے پیش نظر نہایت قابل قدر ہیں۔
قیس زحمت کش تنہائی صحرا نہ رہے
شہر کی کھائے ہوا باد یہ پیمانہ رہے
”جواب شکوہ“ میں اقبال نے کئی اشعار کو ایسے خوبصورت الفاظ کا جامہ پہنایا ہے کہ تصویر کاری یا محاکات نگاری کی عمدہ مثالیں لگتی ہیں۔
کشتی حق کا زمانے میں سہارا تو ہے
عصر نو رات ہے دھن
دلا سا ستارا تو ہے
صنعت گری
صنعت تلمیح:
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا
صنعت طباق ایجابی:
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی، دین بھی، ایمان بھی ایک
صنعت مراعا ة لنظیر:
حرم پاک بھی، اللہ بھی قرآن بھی ایک
کیا بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
حسن ِ تعلیل:
کچھ جو سمجھا جو مرے شکوے کو تو رضواں سمجھا
مجھ کو جنت سے نکالا ہو ا انساں سمجھا ایک اورشعرشکوہ کا یہ بھی تھا جس پہ لوگ زیادہ بھرم ہوئے، جنگوجدل سکھایاواعظ کو بھی خدا نے ،
دیگر فنی محاسن
جس سے شکوہ کیا جائے جواب میں اس کی طرف سے بالعموم معذرت پیش کی جاتی ہے مگر جواب شکوہ کا حسن بیان دیکھیے کہ اس میں شکوہ کرنے والے پر اس کا شکوہ لوٹا دیا گیا ہے۔ گویا شکوہ کرنے والے کا منہ بند کر دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں کچھ اشعار قابلِ ذکر ہیں جن میں بلا کا طنز اور کاٹ موجود ہے۔
یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتائو تو مسلمان بھی ہو
جواب شکوہ میں خوبصورت تراکیب بھی ملتی ہیں۔ شاعر نے اپنے مطلب کی وضاحت کے لیے ایسی بلیغ اور عمدہ ترکیب سازی سے کام لیا ہے کہ نہایت مشکل بات دو تین لفظوں کی مدد سے بڑے خوبصورت انداز میں بیان کر دی ہے۔ مثلاً مردم چشم زمین، بانگ درا، برق طبعی، شعلہ مقالی، قدسی الاصل، دانائے رموز کم،وغیرہ، جبکہ مشکل پسندی اور فکر وخیال کی جدت کے اعتبار سے یہ نظم اقبال کا حسین و جمیل پیکر ہے۔ تاثرات کی شدت اور گہرائی نظم کے ہر حصے میں موجود ہے۔ اور اس کااختتام تو لا جواب ہے۔
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح قلم تیرے ہیں
پوری نظم کا نچوڑ یہ شعر ہے امت مسلمہ کے شکوے کے جواب میں یہی شعر بہت ہے۔
مجموعی جائزہ
”جواب شکوہ“میں مسلمانوں کے مذہبی، روحانی اور اخلاقی انحطاط کے اسباب نہایت دل کش انداز میں بیان کیے گئے ہیں اور مسلمانوں کی شیرازہ بندی کا علاج بھی تجویز کیا ہے۔ اور بتایا ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے کردار سے رسول پاک کے امتی ہونا ثابت کریں اور ان کے دامن سے وابستہ رہنے کا عزم کریں۔ یہی خداوند تعالٰی تک رسائی کا راز ہے۔
”شکوہ“ کو اگر مذہبی شاعری کی وسواخت کہا جائے تو وسواخت کا خاتمہ عام طور پر محبوب سے صلح صفائی پر ہوتا ہے اس لحاظ سے ”جواب شکوہ“ تعلقات کے ازسرنو خوشگوار ہونے اور اعتدال پر آنے کا اعلان ہے۔ بقول عبد القادر سروری
” شکوہ“ ”جواب شکوہ“ میں سے کسی نظم کا جواب اردو میں نہیں ہے۔ شکوہ میں جس شاعرانہ انداز سے مسلمانوں کی پستی کا گلہ خدا سے کیا گیا ہے اور ”جواب شکوہ “ میں ابھرنے کی جو ترکیب بتائی گئی ہے اس میں الہام ِ ربانی کی شان نظر آتی ہے۔