پریم چند کی افسانہ نگاری
پریم چند بہت سے ادبی تجربات سے دو چار ہوئے ۔ ان کے افکار پر خارجی و داخلی محرکات اثر انداز ہوتے رہے۔ نظریات میں تبدیلیاں آتی رہیں ۔ ملکی و قومی معاملات ، ضروریات اور مفادات ان کے پیش نظر رہے۔ بدلتے ہوئے حالات اور ان کے تقا نے پریم چند کے ذہن پر اثرات مرتب کرتے رہے اور ان کا تخلیقی عمل ان تمام حرکات کے زیر اثر ارتقاء کے تدریبی مرامل سے گذر کرفن پاروں کو ڈھالتا رہا۔ مجموعی طور پر ان کے افسانوں کے معروضی مطالعہ کے لیے چند یمنی عنوانات قائم کیے ہیں تا کہ پریم چند کے افسانوں کو بالترتیب مطالعہ کرتے ہوئے نیتجہ اخذ کیا جا سکے۔
پریم چند پہلے افسانہ نگار ہیں جنھیں ان کا جذبه محب الوطنی ادب کی سنگلاخ وادی میں چلایا اور وہ تقریبا تمام عمر اسی جذبہ کے زیراث تخلیقی عمل سے گزرتے رہے۔ ان کا پہلا افسانه عشق دنیاو محب وطن اسی جذبے کا مظہر ہے۔ ان کے پہلے افسانوی مجموعے سوز وطن“ کے نام سے ہی ان
کی دلی کیفیت اور ان کے ذہنی کرب کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ اس مجموعے کے دیباچے میں انھوں نے لکھا ہے کہ:
۔ اب ہندوستان کے قومی خیالات نے بلوغیت کے زینے پر ایک قدم اور بڑھایا ہے اور محب وطن کے جذبات لوگوں کے دلوں میں سر ابھارنے
گئے ہیں۔ کیوں کر مکن تھا کہ اس کا اثر ہمارے ادب پر نہ پڑتا۔ یہ چند کہانیاں اس امر کا آغاز ہیں، اب ہمارے ملک کو ایسی کتابوں کی اشد ضرورت ہے جو نئی نسل کے جگر پر محب وطن کی عظمت کا نقشہ جمائیں۔
سوز وطن‘‘ کا پہلا افسان’’دنیا کا سب سے انمول رتن داستانوی طرز میں ڈوبا ہوا رومانی افسانہ ہے۔ اس افسانہ میں پریم چند نے آزادی وطن کی قدر و قیمت بتا کر ہندوستانی عوام کو مذکورہ جذ بہ کی جانب راغب کیا ہے۔ انسان کا ہیرو، دل فگار ہیروئن ملکہ دل فریب سے
بے پناہ شق کرتا ہے اور شادی کا پیغام پہنچاتا ہے ۔ ملکہ کی شرط رکھتی ہے کہ پہلے وہ اسے دنیا کا سب سے انمول رتن لا کر دے۔ دل فگار انمول رتن کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے مگر پس و پیش میں مبتلا رہتا ہے کہ کون ساتھی محبوب کے حضور میں پیش کرے؟ آنکھ سے چپکا ہوا آ خری آنسو اور ستی کی رائنا منظور ہو تے ہیں ۔ با لآخر حضرت خضر کی نشان دہی پر وہ ہندوستان کے ایک ایسے میدان جنگ میں پہنچتا ہے جہاں سیکڑوں مردو اور نیم مردہ سپاہی نظر آتے ہیں ۔ ایک دم توڑتا ہوا سپاہی اس کو اپنے قریب بٹھا کر کہتا ہے اگر تو مسافر ہے تو آ اور میرے خون سے ہر پہلو میں بیٹھ جا کیوں کہ ہیں دو انگل زمین ہے جو میرے پاس باقی رہ گئی ہے اور جو سوائے موت کے
کوئی نہیں چھین سکتا ہے اس کے شدت جذبات سے مغلوب ہو کر راجپوت سپاہی بھارت ماتا کی ہے‘ کا نعرہ لگاتا ہے جس کے ساتھ ہی اس کے سینے سے خون کا آخری قطرہ نکل کر دیش بھکتی کا حق ادا کر جاتا ہے۔ دل نگاروہ آخری قطره خون لے کر ملک دلفریب کی بارگاہ میں حاضر ہوتا ہے اور اسے ملکہ کی خدمت میں نظر کرتا ہے ۔ ملکہ اس انمول نذرانے کو محبت اور احترام سے قبول کرتی ہے ۔ اس موقع پر پریم چند نے اپنے جذبہ حریت کا اظبار ملکہ دل فریب کی زبانی اس طرح کیا ہے۔
اے عاشق جانار! آج سے تو میرا آقا اور میں تیری کنیز ناچی‘‘ کیونکہ وہ قطره خون جو وطن کی حفاظت میں گرے، دنیا کی سب سے بیش قیمت
شے ہے۔
مجموند کا دوسرا افسانه شیخ مخمور، بھی وطن پرستی کے جذبات پرمشتمل ہے۔ اس افسانہ میں شہرزاده مسعود، شیخ محمور کے بھیس میں اپنے سپاہیوں کو خطاب کرتا ہے۔ شہزادہ کی تقریر دراصل پریم چند کے خیالات کی ترجمان ہے۔
ہم نے یہ جنگ توسیع سلطنت کے کینے ارادے سے نہیں چھیٹری ۔تم حق اور انصاف کی لڑائی لڑ رہے ہو۔ کیا تمہارا جوش اتنی جلدی ٹھنڈا ہو گیا؟
کیا تمہاری تین انصاف کی پیاس اتنی جلدی بجھ گئی ؟ تم جانتے ہو کہ انصاف اور حق کی نعت ضرور ہوگی ۔ ہاتھوں میں تیغ مضبوط پکڑو اور نام خدا
لے کر دشمن پر ٹوٹ پڑو، تمہارے تیور کہے دیتے ہیں کہ میدان تمہارا سوز وطن‘‘ کا تیسرا انسان یہی میرا وطن ہے، انداز بیان کے اعتبار سے پچھلے دونوں انسانوں سے قدرے جدا ہے مگر موضوع کے لحاظ سے اس افسانہ میں بھی پچھلے جذبات کی کارفرمایاں ہیں۔ انسان کا ہیرو ایک ایسا دیش بھگت ہے جو ساٹھ سال سے امریکہ میں رہتے ہوئے یہ خواہش رکھتا ہے کہ زندگی کا خاتمہ اپنے پیارے بھارت میں ہو۔ حالانکہ امریکہ میں اسے دولت اور شہرت کے علاوہ حسین بیوی اور سعادت مند بچے ملے ہیں جنھوں نے اس کی تجارت میں چار چاند لگائے ہیں۔ مگر وہ سب کو چھوڑ کر اپنے دیس کو چل دیتا ہے تا کہ اس کی خاک پاک میں دفن ہو سکے ۔ بمبئی میں جہاز سے اترنے کے بعد وہ قرب و جوار کے ماحول کو دیکھ کر بے ساخته کہ اٹھتا ہے کہ یہ میرا پیارا دیں نہیں ، یہ میرا پیارا بھارت نہیں اس طرح کے تکلیف دہ الفاظ بیٹی سے گائوں تک وہ پانچ بار دہراتا ہے۔ ابتداء زندگی کی کسمپرسی اورمغربی انداز کی اندھی تقلید پر پھر گاؤں میں بندوق لیے انگریزوں اور لال پگڑی والوں کے تشد د کو دیکھ کر، اس کے بعد قدیم تہذیب ، روایات اور اخلاقی اقدار کی تنزلی دیکھ کر وہ تمام رات چوپال کے پاس ذہنی کرب میں مبتلا رہتا ہے اور سوچتا ہے کہ ہم وطنوں نے انگریزوں کے اثرات قبول کر لیے ہیں اس لیے امریکہ واپس جانا چاہیے۔ لیکن طلوع ہوتی ہوئی میچ کا پیارا جن پر جو میرے اوگن چت نہ دھرو شیام بھگت میرا اور شیر شیو ہر ہ نارائن‘ کی صداؤں کے تعاقب میں وہ گنگا کے کنارے کرن اٹھتا ہے کہ ہاں ہاں بہی میرا دی ہے۔ یہی میرا پیارا وطن ہے۔ یہی میرا بھارت ہے اور اس کے دیدارکی ، اسی کی خاک میں پیوند ہونے کی حسرت دل میں مجمود کا پانچواں انسان عشق دنیا و محب وطن ہے۔ یہ انسان اپنے عنوان سے ہی وطن کی عظمت اور محبت کا درس دیتا ہے۔ اس افسانہ میں پریم چند نے اٹلی کے ایک عظیم کردار میز مینی کو بڑے رومانی انداز میں پیش کیا ہے جس نے ملک کی آزادی اور جمہوری نظام کے قیام کے لیے انتھک جد و جہد کی ۔ اپنی تمام خوشیوں کو قربان کرتے ہوئے اس نے ظلم اور جبر کو برداشت کیا اور زندگی کے آخری محوں تک سرفروشی اور جانبازی کا ثبوت دیا۔ جذب گر میت: پریم چند نے تقریبا تین سو افسانے مختلف موضوعات پر لکھے ہیں ۔ ان کے بیشتر افسانے کسی نکسی شکل میں جذب حب الوطنی سے معمور ایک مشترک زمیہ میں امر کا سراغ د یتے ہیں جو ان کی تخلیقات میں شیر و شکر ہوکر ادبی شہ پاروں کو ایک مخصوص مزاج سے ہم آہنگ کیے ہوئے ہیں ۔ افسانہ کا موضوع کوئی بھی ہو لیکن پس پردہ اسی جذبہ کی کارفرمائی مختلف رنگ و روپ میں دکھائی دیتی ہے۔ ملکی و قومی مسائل کا درد برقی روبن کر تمام عمران کے دل و دماغ کو اپنی گرفت میں لیے رہا اور حالات کے مطابق مختلف ادبی ملبوسات میں ظاہر ہوتا رہا ہے۔ ان کے افسانوں کے غائر مطالعہ سے جذبه گره بیت ، تشدد اور عدم تشد د دونوں ہی صورتوں میں نظر آتا ہے۔ وہ گاندھی جی کے اہنسا کے رویے اور تحریک عدم تعاون سے اس حد تک متاثر ہوتے ہیں کہ ۱۵ فروری ۱۹۳۱ء کو سرکاری ملازمت سے استعفی دے دیتے ہیں اور پھر اس کی حمایت میں اپنے قلم کا سارا زور صرف کرتے ہیں ۔ انسان ال فیتہ اس کی بہترین مثال ہے جو قاری کو جنگ آزادی کی حمایت پر آمادہ اور اس میں شرکت کے لیے ہموار کرتا ہے۔’لال فیت‘‘ کا ہیرو ہری با اس ایک انصاف پسند ڈپٹی مجسٹریٹ ہے۔ اسے پہلی عالمی جنگ میں انگریزوں کے ساتھ وفا داری کے صلہ میں رائے بہادری کے اعزاز سے نوازا جاتا ہے۔ اور ساتھ ہی ایک سرکاری مراسلہ بھی دیا جاتا ہے جوشرخ فتے میں بندھا ہوتا ہے۔ مراسل کو پڑھتے ہی ہری با اس کے جذبات میں ہیجان برپا ہو جاتا ہے۔ اس کے سینے میں حب الوطنی کی دی ہوئی چنگاری شعلہ کا روپ اختیار کر لیتی ہے اور وہ اپنے ذاتی مفادات کو ترک کرتے ہوئے سرکار کو جواب لکھتا ہے: ۔
”میں نے پندرہ سال تک سرکار کی خدمت کی اور حتی الامکان اپنے فرائض کو دیانتداری سے انجام دیا----- لیکن مراسلہ ----- میں جو احکام نافذ کیے گئے ہیں وہ میرے ضمیر اور اصول کے مخالف ہیں ۔ لہذا میں ہندوستانی ہونے کے اعتبار سے یہ خدمت انجام دینے سے معذور ہوں اور استدعا کرتا ہوں کہ مجھے بلا تاخیر اس عہدے سے سبکدوش کر دیا جائے ۔۳ اس افسانہ کے کردار ہری باس کے وسیلے سے پریم چند نے ہندوستانیوں میں ایک شعور پیدا کرنے کی کوشش کی کہ انگریزوں کے ساتھ تعاون قومی غیرت کے خلاف ہے۔
سرفروشی کی تمنا:
آزادی کی جنگ میں جلسہ جلوس، احتجاج و ستیہ گرہ نے جب شدت کا رخ اختیار کیا اور وطن پر مر مٹنے والوں نے سر سے کفن باندھ لیا تو پریم چند بھی قلم کے سپاہی کی حیثیت سے سر فروشوں کی صف میں داخل ہو گئے نیت ان کے افسانوں میں تندی اور تیکھے پن کی تہہ کا مزید اضافہ ہوگیا۔ انقلابیوں کی تحریک کی ہی تیزی ان کے کئی افسانوں میں واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔ مثلا افسانه قاتل ( مجموعه آخری تحفہ ) کا ہیرو دارم و م آزادی کے جذبے سے معمور ہے۔ وہ اپنی ماں کو مادر وطن کی عظمت کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتا ہے: تم نے مجھے یہ زندگی عطا کی ہے اسے تمھارے قدموں پر نثار کر سکتا ہوں لیکن مادر وطن نے تمھیں اور مجھے دونوں ہی کو زندگی عطا کی ہے اور اس کا حق افضل ہے۔ اگر کوئی ایسا موقع ہاتھ آ جائے کہ مجھے مادر وطن کی حمایت کے لیے تمہیں قتل کرنا پڑے تو میں اس نا گوارفرض سے بھی منہ موڑ سکوں گا۔ آنکھوں سے آنسو جاری ہوں گے لیکن تلوار ہاری گردن پر ہوگی ۔ اسی طرح افسانجیل (مجموعه آخری تحفہ) کا ہیرو مھر اپنی بو بر روپتی سے کہتا ہے
ذرا سوچو میری جان کی قیمت کیا ہے۔ ایم ۔ اے۔ پاس کرنے کے بعد یہاں کے بدلے یہاں کیا ملے گا۔
مذید پڑھیں اردو ادب کے بہترین افسانہ نگار۔
پریم چند کی افسانہ نگاری کو ترقی پسند تحریک کے تناظر میں بیان کریں
پریم چند فکر و فن
افسانہ کفن کب شائع ہوا
پریم چند کے افسانے کفن
بیوہ پریم چند
پریم چند کا افسانہ پنچایت
پریم چند فکر و فن
افسانہ کفن کب شائع ہوا
پریم چند کے افسانے کفن
بیوہ پریم چند
پریم چند کا افسانہ پنچایت