دبستان دہلی کا پس منظر
اورنگ زیب بادشاہ کی وفات کے بعد اُس کا فرزند معظم تخت نشین ہوا۔ لیکن اس کے بعد معظم کے بیٹے معز الدین نے اپنے بھائی کو شکست دے کر حکومت بنائی۔ معز الدین کے بھتیجے فرخ سیر نے سید برادران کی مدد سے حکومت حاصل کی لیکن سید برادران نے فرخ سیر کو بھی ٹھکانے لگا دیا۔ اس طرح 1707ء سے لے کر سن1719ءتک دہلی کی تخت پر کئی بادشاہ تبدیل ہوئے۔ بادشاہ محمد شاہ اور بادشاہ رنگیلا کی عیاشی کے دور میں بادشاہ نادر شاہ درانی نے دہلی پر حملہ کردیا،جس سے دہلی کی حالات بہت بگڑے اور دہلی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، پھر بادشاہ احمد شاہ ابدالی کے حملے نے مزید کمی بھی پوری کر دی۔دہلی پر دوسری طرف مرہٹے، فرقہ جاٹ اور روہیلہ آئے دن دہلی پر بہت سے حملہ آور ہوئے اور قتل عام کرتے اس دور میں کئی بادشاہ بدلے اور مغل سلطنت محدود ہوتے ہوتے صرف دہلی تک محدود ہو کر رہ گئی، اور آخری تاج دار بہادر شاہ ظفر، کو انگریزوں نے معزول کر کے رنگون بھیج دیا۔ یہ تھی دہلی کی مختصر تاریخ جس میں ہماری اردو شاعری پروان چڑھی، یہ ایک ایسا پرآشوب دور تھا جس میں ہر طرف بدنظمی انتشار کن اور زوال پذیر کا دور دورہ تھا۔ اور دہلی اور ملک ہندوستان پر ہر طرف بے چینی چھا گئی تھی۔ جس سے کافی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ اس خراب کن حالت کی وجہ سے جس قسم کی شاعری کو عروج نصیب ہوا اور دبستان دہلی کے چند شعراء کی معلومات درج ذیل ہے۔
دہلی کے شعراء
میر تقی میر
میر تقی میر سن 1723ء فیض آباد دہلی میں پیدا ہوئے اور 1810ءاور لکھنؤ میں انتقال کر گیا، اور اپنی صلاحیت کی وجہ سے اور شاعری کی فن کمالات سے اردو شاعری urdu Poetry کے خدائے سخن کہلاتے ہیں۔ اس کے بارے میں پروفیسر مجنوں گورکھپوری نے میر تقی میر کے بارے میں کہا ہے کہ اردو شاعری بھی اگر اپنا خدا رکھتی، تو وہ ریختہ کا عظیم شاعر میر تقی mir taqi mir میر ہی ہوتے جو ریختہ کا بڑا شاعر ہے۔ درد و غم اور گداز اور حزن میرتقی میر کی شاعری کا اہم بنیادی محور ہے یہ کیفیت اور یہ عنصر غم سب سے نمایاں ہے۔ خود میر تقی میر نے اپنی شاعری اور اپنے فن کے بارے میں کہا ہے۔ کہ
مجھ کو، شاعر نہ کہو، میر کے صاحب۔
میں نے درد و غم، کتنے کیے جمع، تو دیوان کیا۔
میر تقی میر کا غم آفاقی نوعیت کا ہی ہے جس میں غم عشق سے لیکر غم دنیا کا احوال موجود ہیں۔ انھوں نے جو کچھ محسوس کیا جاننا چاہا ہے بڑی صداقت کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کر دیا ہے جو میر تقی میر کے لیے نیا مشاہدہ ہے۔ میر تقی میر کی شاعری اپنے تجربات اور احساسات کاصحیح اور سچائی کا اظہار ملتا ہے۔ ان کے اشعار اور شاعری میں جو بھی پڑھتا ہے اس کے دل میں اتر کر جاتے ہیں۔
اس کے بارے میں میر تقی میر کہتے ہیں کہ
ابتداء ہی میں مر گئے سب یار
عشق کی کون انتہا لایا
میر تقی میر کی شاعری ہندوستانی hindustani Poetry سر زمین اور ایرانی سر زمین کی تہذیب میں آمیزش کی بہترین مثال ہے۔ ان کے ہاں فارسی ادب کے اور اردو ادب کے تراکیب کے ساتھ ساتھ ہندوستانی تہذیب کا ترنم اور موسیقیت بھی ملتی سنگ میل کی حیثیت سے ہیں۔
میر تقی میر کہتے ہیں کہ
اب تو، جاتے ہیں مے کدے سے میر،
پھر ملیں گے، اگر خدا لایا۔
دہلی کا دبستان شاعری
اس دور کی شاعری میں درد و غم
اس دور کی شاعری میں ایک درد سی کیفیت موجود اور پائی جاتی ہے جو درج ذیل ہیں۔ اس کیفیت میں شاعری
درد و غم میر تقی میر صاحب کی شاعری کا بنیادی موضوع ہے درد و غم ہی ہے جو میر تقی میر خود کہتے ہیں کہ۔
سرہانے میر، کے کوئی نہ بولو۔
ابھی ٹُک روتے روتے، سوگیا ہے۔
ایک اور غزل میر تقی میر میں کہتے ہیں کہ
جو، اس شور سے میر، روتا رہے گا۔
تو، ہمسایہ کاہے، کو سوتا رہے گا۔
میرزا محمد رفیع سودا
قصیدہ گو مرزا رفیع سودا میر تقی میر کے ہم عصر تھے۔ شاعر مرزا رفیع سودا کا شمار اردو زبان اور اردو ادب کے سب سے اہم شعراءمیں ہوتا ہیں۔انھوں نے غزل، قصیدہ، مثنوی، مخمس، ہجو، رعبایاں، قطعے، ترجیع بند، واسوخت، سلام، اور مرثیے غرض کہ ہر اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہیں۔ لیکن مرزا رفیع سودا کا شہرت بحیثیت شاعری قصیدہ گوئی اور ہجو گوئی کے زیادہ ہیں۔ انکی غزلوں کی تعداد نسبتاً بہت کم ہیں لیکن غزل میں ان کے درجے اور فن کاری سے کوئی انکار نہیں کیا جاسکتا ہیں۔ مرزا رفیع سودا کے بارے میں بقول خلیق انجم کہتے ہیں کہ
” مرزا رفیع سودا سودا کے ہاں زور بیان، معنی آفرینی، خیال بندی، پرواز تخیل، جدت بیان، قدرتِ اظہار، نشاط انگیزی اور جو جوش و خروش ملتا ہے وہ اس فن کاری کا حصہ ہے۔“
مذید کہتے ہیں کہ مرزا رفیع سودا کے بارے میں کہ یہ بات یاد رہے کہ مرزا رفیع سودا سودا کی غزلوں میں سچائی و صداقت اور جذبات کی سادگی، بے ساختگی اور درد و سوز کی کیفیت بھی ہے۔ جو میر کی غزل کا طرح امتیازی حیثیت رکھتی ہیں۔
مرزا رفیع سودا کہتے ہیں کہ
جس روز کسی اور پے بے داد کروں گے
یہ یاد رہیں ہم کو بہت یاد کروں گے
کیفیت چشم، اس کی، مجھے یاد ہے سودا۔
ساغر کو، میرے ہاتھ، سے لینا کہ چلا میں۔
سودا جو ترا حا ل ہے، اتنا تو نہیں وہ
کیا جانییئے، تو اسے کس حال میں دکھا
صوفی خواجہ میر درد
اردو ادب کے عظیم صوفی خواجہ میردرد ایک مشہور خاندان کے چشم وچراغ اور لائق ترین فرزند تھے اور ایک صوفی باپ عندلیب کے بیٹے تھے۔ انھوں نے تصوف اور ان کے کو صرف روایت سے مجبور ہو کر نہیں اپنا لیا بلکہ وہ خود ایک باعمل اور صداقت پسند صوفی بھی تھے۔ ان کے مزاج میں اعتدال پسندی توازن داری،حلم، تحمل اور بردبادی کی حسن صفات موجود تھیں۔ اس لیے جہاں اور جس مخفل میں جاتے عزت و احترام کی نگاہ اور شرف سے دیکھے جاتے تھے اور پسند کیے جاتے تھے۔ خواجہ میر درد قناعت پسندی اور خوداری جیسی صفات ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی جس سے ان کی شاعری چمکی جا رہی تھی اور جانے پہچانی جاتی تھیں۔شاعری اور نجی زندگی میں ان کی انہی صفات کی صورت ان کی شاعری میں بھی نظر نمایاں تھا۔ خواجہ میر درد کے بارے میں بقول عظمت اللہ کہتے ہیں کہ۔
”صوفی شاعر خواجہ میر درد دہلی میں اردو ادب میں صوفیانہ کلام کی شاعری کے باوا آدم تھے“
ایک درد لکھتے ہیں کہ
جگ میں آکر، ادھر ادھر دیکھا
تو ہی آیا نظر، جدھر دیکھا۔
ارض و سماں کہاں تیری وسعت کو پاسکیں
میرا ہی دل ہے، وہ کہ جہاں تو سماں سکیں
اس ہستی خراب سے، کیا کام تھا ہمیں۔
اے نشا، ظہور یہ تری، ترنگ تھی
شیخ محمد ابراہیم ذوق
قصیدہ گو اور غزل گو شاعر شیخ محمد ابراہیم ذوق اردو ادب کا بہترین شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم الشان نثر اور ادیب گزرا ہے جو اپنی شاعری میں کمال ہی ہے۔شیخ محمد ابراہیم ذوق کو بعض نقادوں نے مرزا رفیع سودا کے مشابا قرار دیا ہیں ایک تو اس لیے کہ ذوق کی ہجوگوئی کے باوجود دونوں کا کوئی مخصوص طرز احساس معلوم نہیں ہوتا اور دوسرے قصیدہ نگاری کو دونوں نے بھی پایہ کمال تک پہنچایا ہیں۔ ان کی غزل میں جذبے اور تکنیک کا فقدان صاف نظر آتا ہے اس لیے کہ انھوں نے خالصتاً الفاظ کے ذریعے شاعری کی۔انھوں نے فکر تخیل اور جذبہ کی کمی کو محاورات کے ذریعے پوری کرنے کی کوشش جگہ جگہ کی ہیں۔ شیخ محمد ابراہیم ذوق کی بعض اشعار دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ صرف محاورہ بندی کے لیے جوڑے اور لکھے گئے ہیں۔ ذوق کی شاعری میں حسن و عشق کی قلبی واردات بھی نمایاں ہیں اور تصوف اور اخلاقی موڑ بھی لیکن یہ سب روایتی اور تعریفی محسوس ہوتے ہیں۔
وقت پیری، شباب کی باتیں۔
ایسی ہیں، جیسے خواب کی باتیں
لائی حیا ت، آئے قضا، لے چلی چلے۔
اپنی خوشی سے آئے، نہ اپنی خوشی، چلے
مرزا اسد اللہ خان غالب
مرزا اسد اللہ خان غالب کی شاعری ہر زمانے میں نہ صرف زندہ رہی ہیں بلکہ جدید اور نیاپن کی مثال بھی رہی ہیں۔ مرزا غالب ہاں ہمیں جنس کا ایک پورا صحت مندانہ تبصرہ ملتا ہے۔ انھیں مسلسل پریشانیوں اور محرومیوں نے نہ صرف زندگی سے پیار کرنا سکھایا تھا بلکہ انہوں نے غم دکھ درد کو بھی ایک حقیقت کے روپ اور پردے میں قبول کیا تھا۔ مرزا غالب کے نزدیک غم کے وجود اور پریشانی کو تسلیم کر لینے کے بعد اس کی تلخی، خزن اور درد کی چبھن میں کافی کمی واضح ہو جاتی ہے۔
نغما ہائے، غم کو بھی، اے دل غنیمت جانیے،
بے صدا ہو جائیں، گا یہ ساز ھستی، ایک دن۔
فلسفیانہ سوچ
مرزا اسد اللہ خان غالب کی شاعری اس کے فلسفیانہ اور جدید ذہن کی غمازی اور تشریح کرتا ہے۔ جو کہ نئی تہذیب اور پرانی تہذیب کی آویزش گلاؤٹ اور حرکت سے وجود میں آئی ہیں۔
ہم، کو معلوم ہے، جنت کی حقیقت، لیکن
دل کو بہلانے کو غالب، یہ خیال اچھا ہے۔
ہیں، آج کیوں زلیل، کہ کل تک نہ پسند
گستاخی فرشتا، ہماری جناب میں۔
مومن خان مومن
مومن خان مومن میدان شاعری میں تمام عمر غزل کے پابند رہے ہیں۔ اور غزل میں کم سے کم الفاظ میں بڑے سے بڑے خیال اور گہرے تخلیق اور ابلاغ اور زور سے شدید جذبہ کی تصویر نگاری اور مصوری کی کوشش کی ہیں۔اس لیے مومن خان مومن نے جذبہ عشق سے وابستہ تہ در تہ کیفیات کے اظہار میں کافی حد تک کمال پیدا کیا ہے۔ چناں چہ انھوں نے دہلی اس دور کی پر آشوب دور کی خالص اردو میں صاف ستھری غزل گوئی کی تخلیق کی۔ دبستان لکھنوی شعراءکے برعکس انھوں نے جنس نگاری کو فحش اور ابتذال سے بچا کر صحت مند اور توانا حدو د میں رہنے دیا ہیں۔مومن خان مومن کی معاملہ بندی لکھنوی شعراء سے کافی مختلف نظر آتی ہے۔ مومن خان مومن کے ہاں ایک جدید ترین تصور اور تفکر کا عشق ملتا ہے۔ مومن خان مومن کا عاشق واضح طور پر ہرجائی ہے۔
ہم بھی، کچھ خوش نہیں وفا، کر کے
تم نے، اچھا کیا نباہ، نہ کی
بہت سے ادیبوں اور نقادوں نے مومن خان مومن کی شاعری کو اہم خصوصیت نکتہ آفرینی بتایا ہے جو ان کا نمایاں خصوصیت ہے۔
تانا خلل پڑے، کہی آپ کے خواب ناز، میں
ہم نہیں چاہتے، کمی اپنی شب دراز، میں
عمر تو ساری، کٹی عشقِ بُتاں، میں مومن
آخری عمر میں، کیا خاک مسلماں، ہوں گے۔
سیاسی اور معاشرتی
سیاسی اور معاشرتی لحاظ سے اس حالات کی بدولت دبستان دہلی میں جس رنگ اور اصناف سخن اور شاعری کا رواج ہوا اس کی خصوصیات درج ذیل ہیں۔
دبستان دہلی کے شعری موضوعات
زبان میں فارسیت
دبستان دہلی کے شعراء کے شاعری میں اور ان کے ہاں فارسیت کا بہت غلبا تھا کیوں کہ شعرائے دہلی فارسی شاعری کی شعری روایت اور دبستان دہلی کے شعری موضوعات سے بہت متاثر اور مطمیئن تھے اور ان پر فارسی شعراء کا گہرا اور شعری زور کا اثر تھا۔دہلی میں ایران سے جو شعراء آیا کرتے تھے ان میں سے اکثر دہلی ہی کے رہ جاتے تھے۔ چناں چہ امیر خسرو، شاعرحسن، شاعر عرفی، نظیری،شاعر طالب، صائب اور شاعر بیدل وغیرہ وغیرہ مختلف سے ادوار میں یہاں رہے ہیں۔ اسکے علاوہ یہاں فارسی شعراءکی زبان تھی۔ اگرچہ یہاں کے شعرا ءاردو اور فارسی زبانوں میں مہارت رکھتے تھے۔ اس کا نتیجہ اور ماخذ یہ ہو ا کہ فارسی اسالیب و موضوعات وغیر ہ دہلی کے دبستان شاعری میں شامل ہو گئے تھے اور اس طرح بہت سے شعراء نے فارسی شعراء خافظ سعدی، و خافظ کا ترجمہ کیا۔ اور اردو ادب اور زبان کو خزانہ اردو کو مالا مال کیا۔ اس طرح دبستان دہلی کی شاعری میں فارسیت کا غلبہ رہا اور وہ غلبہ سرمایہ رہا ہے اردو ادب اور دبستان دہلی کے لیے۔
جذبات عشق کا اظہار
ٍ دبستان دہلی کے شعراء نے جذبات و احساسات کے اظہار پر زیادہ ترجیح دی ہے۔ اور دبستان دہلی کے شعراء نے عشق مجازی اور عشق حقیقی کے جذبے کو اولیت دی ہیں۔اس کے بارے میں بقول ڈاکٹر نور الحسن دبستان دہلی کے شعرائے دہلی کو اس بات کی پروہ نہیں تھی کہ ان کا اسلوب بیان اور انداز بیان اور طرز ادا خوب تر ہوں بلکہ ان کی کوشش تھی کہ دبستان دہلی کی شاعری میں جذبات و احساس کا اظہار ہو جائے اور کمال فن ہو ۔ اس لیے بعض اوقات تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا دبستاں دہلی کے شاعر کو عشق سے عشق ہو گیا ہیں۔ دہلی کے کچھ شعراءعشق مجازی سے گزر کر عشق حقیقی سے میں ڈوب جاتے ہیں۔ دبستان دہلی کے شعراء نے اللہ تعالٰیٰ سے لو لگائی اور فیضان عشق کی بدولت ان میں ایسی بصیرت اور استعداد پیدا ہوئی کہ وہ تمام بنی نوع انسان سے محبت کرنے لگے۔ جب کہ کچھ لوگ عشق مجازی کی منزل پر رک گئے ہیں۔ چناں چہ ان کی شاعر ی میں محبت کا سوز تڑ پ اور درد ضرور موجود ہے۔ جب کہ کچھ شعرا نفس پر قابو نہ پا سکے اور وہ ابولہوسی میں مبتلا ہو کر رہ گئے ہیں۔ چناں چہ دہلی میں عشق کے یہ تینوں اقسام موجود ہیں۔ مثلاً خواجہ میر درد جیسے شاعروں نے صوفی شاعری کی ہیں اور عشق حقیقی کو اپنی شاعر ی کا موضوع بنایا ہیں۔
قاصد نہیں، یہ کام تیرا اپنی راہ لیں
اس کا پیام، دل کے سوا، کون لا سکے
جب وہ جمال دل، فروز صورت مہر نیم، روز
آپ ہی ہو نظارہ، سوز پردے میں منھ چھپائے کیوں
عشق مجازی
دبستان دہلی میں دوسرا عنصر عشق کا یہ انداز جو دہلی میں بہت مقبول ہوا ہے۔ اس میں عشق حقیقی کے ساتھ ساتھ عشق مجازی کے جذبات بھی شامل ہوگئے ہیں۔ یہ رنگ میر تقی میر نے بہت خوبی سے نبھایا ہیں۔ ان کے جذبہ عشق میں وہ خلوص اور سچائی کی گہرائی تھی جس نے ان کی بعض شعرا کے شاعری کوحیات جاوداں عطا کی ہیں۔ عشق کا یہ تیکھا اور بے وزن انداز بیان دبستان دہلی سے مخصوص ہے۔ عشق مجازی کے چند اشعار ملاحظہ ہوں جن میں دہلی کے تمام شعراء نے بڑی خوب صورتی سے ان جذبات کو شاعری کا روپ اور سمایا دیا ہے۔
پاس ناموس، عشق تھا، ورنہ
کتنے آنسو پلک تک آئے تھے
جس روز کسی اور پہ بے داد کروں گے
یہ یاد رہے، ہم کو بہت یاد کروں، گے
لوگ، کہتے ہیں عاشقی، جس کو
میں جو دکھا، بڑی مصیبت ہیں
پھر کے جو وہ شوخ، نظر کر گیا
تیرے، کچھ دل میں گزر کر، گیا
حزن و یاس
دبستان دہلی کے بہت اقسام ہیں جن میں عشق مجازی اور عشقِ حقیقی کی شاعری کی ایک اور نمایاں خصوصیت رنج و الم اور حزن و یاس کا بیان بہت نمایاں رہا ہیں۔ دبستان دہلی کی شاعری کا اگر بحیثیت مجموعی جائزہ کیا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ دبستان دہلی کی شاعری میں یاس و نا امیدی کے جذبات بکثرت اور شدت سے موجود ہیں۔ شاعرخواہ کسی موضوع پر بات کریں رنج و الم کا ذکرضرور آجاتا ہیں۔اس کا وجہ یہ ہے کہ اس سارے زمانے میں کسی کو اطمینان و سکون نصیب نہ تھا۔پر آشوب دور تھا۔ اور زندگی ایک خواب پریشاں بن کر رہ گئی تھی۔ ہر طرف نفسانفسی کا دور دوراں تھا۔ کسی شے کو ثبات نہ تھا۔ ان کٹھن حالات کا شاعری پر بھی گہرا عکس نظرآتا ہیں۔ہر جگہ اور خارج میں تباہی و بربادی پھیلی مچھی ہوئی تھی۔ اور تباہی و بربادی کے تاریک سائے شاعری میں بھی راہ پاتے نظر آتی تھی۔ چناں چہ فنا کا احساس بہت تیز رو ہے۔ اس کے ساتھ اجڑے ہوئے شہر لٹے ہوئے نگری اور ویران گزر گاہیں جا بجا جگہ جگہ موجود ہیں۔ خصوصاً میر تقی میر اور رفیع سودا کے دور میں زندگی کی ناپائیداری کا احساس بہت شدت سے اظہار کی راہ پاتا ہے۔ چناں چہ حزن و یاس کے چند شعر ملاحظہ ہوں جو درج ذیل ہیں۔کہ
کہاں میں نے، کتنا ہے گل کا ثبات
کلی، نے یہ سن کر، تبسم کیا
دل کی ویرانی، کا کیا مذکور
یہ نگر سو، مرتبہ لوٹا، گیا
اس گلشن ہستی، میں عجب دید ہے لیکن
جب انکھ گھل، کی کھلی تو موسم تھا خزان کا
دل گنوانا تھا، اس طرح قائم
کیا، کیا تو نے ہائے، خانہ خراب
منحصر مرنے، پہ ہو جس کی امید
ناامیدی، اس کی دیکھا چاہیے
اس حزن و یاس کی فضا کے بارے میں پروفیسر نیاز فتح پوری لکھتے ہیں کہ ” ظاہر ہے دبستان دہلی کی شاعری یک سر جذبات کی زبان و بیاں ہے اور جذبات بھی وہی ہیں جن کا تعلق زیادہ تر حرماں و مھجوری اور ناکامی سے ہے۔“
تصوف
دبستان دہلی کے واردات قلبی کے اظہار کے بعد دبستان دہلی کے شعراءکا دوسرا پسندیدہ ترین موضوع تصوف ہے۔ چوں کہ ابتداء میں اردو شاعری پر فارسی ادب اور شاعری کی شعری روایت کا بہت زیادہ غلبہ اور فوقیت رہا ہے جس کی وجہ سے اردو ادب کے شعراء نے غیر شعوری طور جس قسم کی فارسی شاعری کے اسالیب، سانچیں، اور موضوعات قبول کر لیے۔ دوسری طرف اس کی موضوع کو اس لیے بھی مقبولیت ملی ہے۔ اور اس لحاظ سے تصوف میں بھی شامل قناعت، صبر و توکل کی طاقت اور نفی ذات کے نظریات نے زیادہ زور پکڑا ہے کیوں کہ اس زمانے کے حالات ہی ایسے خراب تھے جن کی بناء پر لوگ ترک دنیا کی طرف مائل روز بروز ہو رہتے تھے۔ اس زمانے میں یہ خیال یہ مخفل رچی بسی تھی اور عام تھا کہ تصوف برائے شعر گفتن، خوب است، ان میں کچھ تو صوفی شعراء بھی تھے لیکن زیادہ تر شعراء نے محض رسمی اور رواجی طور پر تصوف کے مضامین اور تخیل کو نظم کیا ہے چناں چہ ذوق اور غالب کے زمانے تک تقریباً بہت سے شعراء کے کلام اور دیوان میں تصوف کے مضامین میں نظرآتے ہیں۔ تصوف کی شہرت کا دوسری وجہ یہ تصورات و اقدار ہی تھے جو ہندوستان کی فضاء میں رچیں بسے ہوئے تھے ۔ جن کی بدولت انھون نے تصوف کو موضوع بنایا۔
مسافر اٹھیں تجھے چلنا ہیں، جانب منزل
بجے ہیں، کوچ کا ہر دم نقارا شاہ، حاتم
غافل قدم کو اپنے رکھیں سنبھال کر یاں
ہر سنگ راہ گزر، کا دکان شیشہ گرکا ہیں
ہے جلوا گاہ ترا کیا غیب کیا شہادت
یاں بھی شہود ترا، واں بھی شہود ترا
اس ہستی، خراب سے کیا کام تھا ہمیں
اے نشا، ظہور یہ تیری ترنگ، تھی
سرسر ی، تم جہاں سے گزرے
ورنہ ہر جاں، جہان دیگر، تھا
اس قدر سادا، و پرکار کہی دکھا ہے
بے خود اتنا نمودار، کہی دکھا ہے
اسے کو ن دیکھ، سکتا کہ یگانا ہے وہ یکتا
جو دوئی، کی بو بھی ہوتی تو کہی، دو چار ہوتا
راز پوشیدہ، پوچھے کس سے
بے خبر ہے، جو بہ خبر ہے
رمزیت اور اشاریت
تصوف کی سبب اردو ادب کی شاعری میں بڑی وسعت اور معیار پن پیدا ہوئی چناں چہ بقول ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی کہتے ہیں کہ ” دہلی کی سماں میں تصوف کی تعلیم اور درویشی کی روایت نے خیالات میں بلندی اور تخلیقی گہرائی اور تخلیقی وسعت پیدا کی ہیں۔ اور اصناف سخن اسلوب میں متانت و سنجیدگی کو برقرار معیار کے ساتھ ساتھ انوکھا پن بھی رکھا ہے کسی حد تک۔اس شاعری میں تصوف کے روایات نے شاعری کو ایک اخلاقی لب و لہجا دیا ہے اور ابتذال سے دور رکھا ہے “
مسائل تصوف نے اردو شاعری اور اصناف غزل کو بڑی وسعت سے رمز و کنایہ کی زبان دی ہے، اس میں پیر مغاں، تشبیہ گل، تشبیہ بلبل، تشبیہ چمن، تشبیہ شمع، تشبیہ پروانہ، تشبیہ مے کدہ، اسی طرح کی اور بہت بھی بہت سی علامتیں اور تصوف کی خوبصورت بندش اور اردو شاعری کی راستے میں داخل ہوئیں ہیں۔ تصوف نے اردو شاعری کو فکری پہلو بھی دیا اور استغنا کا درس دے کر دربارداری سے الگ رکھا۔ مزاجوں میں خوداری اور بے نیازی پیدا کی ہیں۔ اس تصوف کی بدولت اردو شاعری میں جو رمزیت اور اشاریت آئی اس سے دبستان دہلی کے شعراءنے اس سے بہت فائدہ اٹھایا اور چند لفظوں اور سانچوں میں معنی کی دنیائیں آباد کیں۔اس کے حوالے سے ذیل کے اشعار دیکھئے کہ پردوں میں کتنے جہاں آباد دکھائی دیتے ہیں۔ جو اردو ادب اور شاعری کے لیے انوکھا انداز ہے۔
ساقی ہے، اک تبسم گل ، فرصت بہار
ظالم بھرے ہے، جام تو جلدی سے بھر کہی
دام ہر موج، میں ہے، حلقا صد کام نہنگ
دکھے کیا گزرے ہیں، قطرے کو گہر، ہونے تک
وہ بادہ و شبانہ، کی سرمستیاں کہاں
اٹھیں، بس آب کہ لذت خواب، سحر گئی
دبستان دہلی میں داخلیت
دبستان دہلی کی اصناف سخن کا ایک اور نمایاں پہلو ہے جو داخلیت ہیں۔ داخلیت کا سمجھ یہ ہے کہ شاعر باہر کی دنیا سے غرض نہیں رکھتا ہے بل کہ وہ اپنے قلب کی واردات کا اظہار کرتا ہے۔ اگر باہر کی دنیا کے متعلق کچھ کہتا ہے تو اُسے بھی شدید داخلیت میں مہو کر پیش کرتا ہے۔ یہ داخلیت دہلی کے ہر شاعر کے یہاں ملتی ہے۔ لیکن اس سے یہ نہ سمجھ لیں کہ شعرائے دہلی کے ہاں خارجیت بالکل نہیں ہے۔ خارجیت بھی ہے۔ لیکن داخلیت میں واردات قلبی یعنی عشق و محبت کے مضامین اور ان مصائب کا بیان شعرائے دہلی نے نہایت خوش اسلوبی سے کیاہے۔
پاس ناموس عشق تھا ورنہ
کتنے انسو پلک تک آئیں تھے
زندگی ہیں یا کوئی طوفان ہیں
ہمتو اس جینے کے ہاتھوں مرچلیں
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزہ پایہ
درد کی دوا، پائی درد لا دوا پایہ
واقعیت و صداقت
دبستان دہلی کی ایک خاص خصوصیت واقعیت اور صداقت ہی ہیں۔ اس کا سمجھ یہ ہے کہ ان شعراء کے ہاں مبالغہ وغیرہ کم پایا جاتا ہیں۔ ان شعراءنے مبالغہ سے زیادہ کام نہیں لیا گیا ہے اگرچہ مبالغہ کا استعمال اصناف شاعری میں بے توازن نہیں ہے اور ایک حد تک لازمی نہیں ہیں۔ لیکن جس بھی کسی چیز کا استعمال حد سے بڑھ کر جائیں تو پھر اُس سے مناسب و موزوں اور بہترین تصور نہیں سمجھا جاتا۔ اسطرح حد سے اصناف سخن میں زیادہ مبالغہ شاعری کو مضحیکہ خیز بنا دیتا ہیں۔ شعراء دہلی کے ہاں اعتدال اور میانہ روی پایا جاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ صداقت اور حسن سلوک کے اظہار کے لیے پر تکلف زبان کو بھی موزوں اور مناسب سمجھا جاتا ہے۔
ہر گھڑی کان میں و ہ کہتا ہیں
کوئی اس بات سے آگاہ نہ ہوں
سخت کافر تھا جسنے پہلے میر
مذہب عشق، اختیار کیا
اس سادگی پہ کون نہ مرجائیں اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں، تلوار بھی نہیں
لائی حیات آئیں قضا لیں چلی چلیں
اپنی خوشی سے آئیں نہ اپنی خوشی چلیں
تم میر ے پاس ہوتے گویہ
جب کوئی دوسرا نہیں، ہوتا
اختصار
دبستان دہلی کے شعرائے کے شاعری میں جہاں زبان میں سلاست و روانی کا عنصر نمایاں اور معیاری ہے۔اور وہاں اختصار بھی پایا جاتا ہے۔ اس پر آشوب دور میں دوسری اصناف سخن کے مقابلے میں صنف غزل سب سے زیادہ نمایاں اور اہم رہی ہے۔ اور صنف غزل کی شاعری اختصار کی متقاضی ایک جگہ ہوتی ہے۔ اس صنف میں نظم کی طرح تفصیل نہیں ہوتی بل کہ بات اشاروں کنایوں میں کیجاتی ہے۔ اس لیے ان شعراء کے ہاں اختصار ملتا ہے۔ نیز اگر صنف غزل کا مخصوص ایمائی رنگ بھی موجود ہیں۔ یہاں کے شعراء اپنے دبستان دلی کے جذبات و احساسات کو جوں کا توں بڑی فن کاری سے پردے ہی پردے میں پیش کر دیتے ہیں۔ اسی با ت کا ذکر کرتے ہوئے مولانا محمد حسن آزاد لکھتے ہیں کہ ان بزرگوں کے شاعری میں تکلف نہیں ہیں جو کچھ سامنے آنکھوں کے دیکھتے ہیں اور اس سے خیالات دل پر گزرتے ہیں وہی زبان سے کہہ دیتے ہیں۔ اس سبب صنف شاعری صاف اور بے تکلف ہیں۔
ہمنشین ذکر یار، کر کچھ آج
اس حکایت، سے جی بہلتا ہے
شاید اسی کا نام محبت ہے، شیفتہ
ایک آگ سی ہے، سینے کے اندر لگی، ہوئی
دل مجھے اس گلی میں لیں جا کر
اور بھی خاک، میں ملا لایا
بے وفائی، پہ اس کی دل مت جا
ایسی باتیں ہزار ہوتی ہیں
تو کہاں، جائیں گی کچھ اپنا ٹھکانہ کر لیں
ہمتو کل خواب عدم میں شب ہجراں، ہو گے
ہم، بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے۔
بے نیازی تیری عادت، ہی صحیح
دبستان دہلی کی خصوصیات
دبستان دہلی pdf
دبستان دہلی کے شعرا
دبستان دہلی کے شعری موضوعات
دبستان دہلی کا پس منظر
دبستان دہلی کا دوسرا دور
دہلی کا دبستان شاعری
مجموعی جائزہ
دہلوی میں دبستان دہلی کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی مذید لکھے ہیں کہ” دبستان دہلی کا ایک خاص اور توانا افتاد ذہنی یا طبیعت اور اصناف شعری کا نام نہیں ہیں جس کا اظہار مخصوص تمدن و شہری اور سماج سےاثرات کی وجہ سے ہوا ہے۔ دبستان دہلی کا شعراء روزگار کا ستایا ہوا غم عشق کا مارا ہوا اور فن کار لگتا ہے۔ اسی لیے اس کے شاعری میں دونوں کی ہلکا درد اور کھٹک پائی جاتی ہے۔یہ شعراء سیاسی حالات نے اسے قنوطی بنایا ہے۔ صنف تصوف نے اس میں روحانیت کی اثر پیدا کی اور اس کے ساتھ ساتھ ایک اخلاقی اور معیاری نصب العین اور تصور عطا کیا گیا ہے۔ اسی نے اس کی آنکھیں اندر کی طرف کھولیں ہیں۔